دنیا کی سب سے قدیم ستر ملین سال پرانی جھیل کنارے مچھلی پکڑنے والی بنسی کا تنازع طے کرنے کیلئے میں دیسی طریقہ یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی آزمانا چاہتا تھا کہ ایوانا نے جھپٹا مارا اور میرے ہاتھ سے بنسی چھین کر دوڑ لگا دی، میں اس کے تعاقب میں دوڑا، چند لمحوں بعد جا لیا، بازو پکڑنا چاہا لیکن محض چھو ہی سکا، ایوانا نے رفتار بڑھائی، چاندنی رات میں ایوانا آگے اور میں پیچھے، ہاتھ بڑھا کر اس کے بالوں کی چٹیا پکڑلی، ایوانا چیخ بلند کرکے رک گئی، دونوں کا سانس پھولا ہوا تھا، ہنستے ہوئے بنسی پر مضبوط گرفت بنائے اپنی طرف کھینچ رہے تھے، ایوانا نے مداخلت ختم کی "جاؤ، مچھلی کے شکار کا شوق پورا کرو"، میں خوشی سے نہال ہوتے بنسی تھام لی، ہوا میں لہراتے بال سنبھاتے بولی "ویسے کسی جنٹل مین کو پہلی مرتبہ مچھلی بنسی کیلئے لڑکی کے پیچھے بھاگتے دیکھا ہے"، اور فقرہ ادھورا چھوڑ دیا، آنکھوں کو گول دائرے میں گھماتے بولی "سچ بتاؤ، بنسی کیلئے بھاگ رہے تھے یا ....؟"، جواب نہ پا کر دونوں کے قہقہے بلند ہوئے.
ہم واپس جیپ کی سمت آئے لیکن یہ کیا، جیپ کہیں نظر نہ آئی، بھاگتے ہوئے دور نکل آئے تھے، ایوانا پریشان ہوئی "جیپ کہاں ہے؟"، میں آنکھیں پھاڑ کر ارد گرد دیکھا "یہاں ہی ہوگی"، ایوانا بدستور پریشان تھی "اگر ساشا بغیر بتائے واپس چلا گیا تو ہم صحرا کی مانند بھٹک سکتے ہیں، قریب ترین انسانی بستی دو سو کیلومیٹر کی مسافت پر ہے"، میں طنز کیا "کم از کم تمہارا چاندنی رات میں جھیل کنارے مچھلیاں پکڑنے کا شوق تو پورا ہوا"، ایوانا نے میرا منہ چڑایا "اور تمہارا دنیا کی سب سے قدیم ستر ملین سال پرانی جھیل دیکھنے کا بھی، اب بھگتو"، میں طنز کیا "تم نے جان بوجھ کر دوڑ لگائی تھی"، وہ ترنت بولی "میری مچھلی بنسی میں تم نے جان بوجھ کر گوشت کا بڑا ٹکڑا لگایا تھا"، میں جوابی وار کیا "بڑے ٹکڑے سے بڑی مچھلی پھنسی تھی"، ایوانا لڑنے پر آمادہ تھی "جی ہاں، اور بڑی مچھلی بنسی لیکر بھاگ گئی، اب ساشا کا نقصان تم پورا کرو گے"، اس کے انداز نے مجھے قہقہہ لگانے پر مجبور کیا، وہ مجھے چڑاتے ہوئے بولی "اب جیپ تلاش کرتے ہیں".
گھوم پھر کر بھی جیپ نہ ملی، چلتے ہوئے ایوانا نے غصے سے میرے ہاتھ سے مچھلی بنسی چھینی "کوئی جنگلی درندہ آ گیا تو دفاع کیلئے ہمارے پاس فقط یہی بنسی ہے"، چلتے چلتے ہم رکے، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھنے لگے، ایوانا گول دائروں میں آنکھیں گھما رہی تھی، مجھے کہنا پڑا " دیکھو ایوانا"، اس نے لاپرواہی سے بات کاٹی "دیکھ رہی ہوں"، میں گڑبڑایا "میری بات سنو"، وہ شرارت سے بولی "سن رہی ہوں"، میں گہری سانس خارج کی "تم مجھ پر بھروسہ کرکے آئی ہو، میں کسی کا بھروسہ نہیں توڑتا"، وہ شرارت سے بولی "ایک معصوم چہرہ جو کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا، یہاں بیٹھتے ہیں"، ریتلی زمین صاف کرکے ہم وہاں بیٹھ گئے، اس کا دھیان ہٹانے کیلئے پوچھا "کیا تمہیں شعروشاعری، گیت و سنگیت میں دلچسپی ہے؟"، وہ ترنت بولی "تم بھول رہے ہو کہ میں ایک میوزک ٹیچر ہوں، کوئی دلچسپ واقعہ سناؤ"، میں سوچنے کی اداکاری کی، ایوانا نے تجویز پیش کی "چاندنی رات میں جھیل کنارے سُر تال بکھیرا جائے"، میرا اثباتی جواب پا کر افسردہ سی بولی "آئیڈیا اچھا ہے، دوبارہ پتہ نہیں ہم ملیں یا نہ ملیں، اگر ملے بھی تو نہ یہ چاندنی رات ہوگی، نہ جھیل کنارہ"، طے پایا کہ باقاعدہ گنگنا کر گانا سنایا جائے اور رشین ترجمہ بھی، یہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، پہلا گیت منتخب کیا،
چاندنی رات ہے تُو میرے ساتھ ہے
کچھ ہوا سرد ہے، دل میں بھی درد ہے
گانا ختم ہونے پر ایوانا نے تالیاں بجائیں، گانا اس کے دل کو چھو گیا تھا، اس کی جذباتی حالت سے اندیشہ ہوا کہ غلط وقت پر غلط گیت کا انتخاب کیا، وہ سر گھٹنوں میں دیکر خاموش ہوگئی، چاند جھیل زیسان کے اوپر پھیلے آسمان کے نیچے لٹکا ہوا تھا، پانی پر ہلکی ہلکی لہریں مائع ستاروں کی مانند چمک رہی تھیں، رات کی ہوا بہار کی سرگوشی سے معطر تھی، نرم ہوا کے جھونکوں سے تازہ پھول، ان کی پنکھڑیاں عاشق کی آہوں سے کانپ رہی تھیں، وہ کچھ بولنا چاہتی تھی لیکن لب تھرتھرا رہے تھے، سنہری بال کندھوں پر پھیلاتے ہوئے گردن پھیر کر میری طرف دیکھا، اس کی آواز ایک راگ تھی، خاموش لیکن لامتناہی، وہ میرے کندھے سے سر ٹکا کر سسکی.
ایوانا کے ہونٹ یقین کی زبردست خوبصورتی سے کانپ رہے تھے، جھیل کی لہریں آہ بھرتی محسوس ہوئیں، پانی کے شور میں ایک گڑگڑاہٹ سی تھی، یہ پاگل میوزک ٹیچر وہ خاموش عہد چاہتی تھی جس سے میں آج تک بچتا آیا تھا، مجھے یقین تھا کہ اگر ذرا سا نرم پڑا تو واپس نہ جا پاؤں گا، میرے والدین، چھوٹی بہن، جگری یار مرزا اجمل جرال اور قیصر منیر کھوکھر ہر مہینے خط لکھ کر پوچھتے ہیں کہ تمہارا کورس کب کا ختم ہو چکا، کب واپس آ رہے ہو؟ ایوانا سے ملے آج تیسرا دن تھا، لامبا قد، نیلی آنکھیں اور بھورے گھنگھریالے بالوں والی خوبصورت رشین دوشیزہ اپنی مثال آپ تھی۔
اچھی میزبان کا دل توڑنا آداب مہمانی کے سراسر خلاف تھا کہ میں اسے روتا ہوا چھوڑتا یا کوئی روگ اس کے سپرد کرتا، رات کی خاموشی میں ایوانا کی آواز گونجی، "وہ چراغ جلتا رہے گا، جب تک محبت اس دنیا میں رہے گی."
ماحول کو شانت کرنے کیلئے میں نے رشین گانے کی فرمائش کی، وہ ڈیانا گورتسکایا کا مشہور گانا "یا زنایُو توچنا تی زدس" شروع کرنے لگی تھی کہ میں بیچ میں سے اچک لیا، رشین زبان جاننے والے اس گانے کے بول اور انداز گائیکی کو بخوبی جانتے ہیں کہ ایک پیدائشی اندھی گلوکارہ نے اس صدی کے مشہور ترین گانوں میں ایک گانا گایا ہے، آواز کے سوز و موسیقی نے اس گانے کو امر کر دیا ہے، میرے روکنے کی کوشش کے باوجود ایوانا کسی دوسرے جہان میں پہنچ چکی تھی، اس نے گانا جاری رکھا.
تم یہاں ہو
میں بالکل جانتی ہوں کہ تم یہاں ہو
میرے ساتھ
خزاں کی رات کے وقت
صرف ایک لمحے بعد
بس مجھے چھوڑ کر مت جانا
گانا ختم ہونے پر میری تالیوں کی بھرپور گونج ماحول کو چیر رہی تھی، ایوانا اپنی آنکھوں کے کناروں سے بہتے آنسو دونوں ہتھیلیوں سے صاف کر رہی تھی، ماحول پر چھائے تناؤ کو کم کرنے کیلئے میں نے عنایت حسین بھٹی کا ایک گیت منتخب کیا.
سُچا سودا پیار جھوٹ نئیں بولنا
تُو ہوویں دلدار فیر کی ڈھولنا
ایوانا حیرت سے آنکھیں پھیلائے بولی "اوہ مائی گاڈ، ایسی شاعری پہلی مرتبہ سنی ہے،" جوابی اس نے مشہور گانا "سوودنیا اترم میکروفون کریچال" سنایا، اس مرحلے تک میں اچھی طرح سمجھ چکا تھا کہ ہر گانے کا توڑ ایوانا کے پاس موجود ہوگا، سوچا کہ ایسا کون سا متاثرکن گیت ہو جو مقابلہ جتوائے، قرعہ فال میڈم نور جہاں کے نام نکلا، سُر تال کی اٹھان اور گہرائیوں کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا میڈم کی کاپی نہیں کر سکتا، فقط کوشش کر سکتا ہے،
رنگ عشق دا سجناں چڑھا کے
مینوں بدو بدی پیار سکھا کے
محبتاں توڑیں نہ
یہ گانا بارہا سنا اور ترجمہ زبانی یاد تھا، چنانچہ اپنے تئیں پورا گلا پھاڑ کے گانا شروع کیا یعنی چار چاند لگانے کی کوشش کی، ایوانا کو ترجمہ بتایا تو وہ بغیر پلکیں جھپکائے میری طرف دیکھنے لگی، وہ شاعری سے کما حقہ واقف اور باریکیاں سمجھتی تھی.
وعدے کراں گی نہ میں کھاواں گی قسماں
پیار دیاں فیر وی نبھاواں گی رسماں
رب نے کرایا اے تیرا میرا میل وے
ہووے ہُن جو وی میں تے بیڑھی دِتی ٹھیل وے
جیہڑے کیتے قول نبھاویں[/poetry]
ایوانا کی بیخودی دیکھ کر میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شاعری کسی کو اس طرح پھڑکا سکتی ہے، گانا ختم ہوا تو اس کی فرمائش پر مجھے پھر سے سُر تال نما بکواس کرنا پڑی، رشین ترجمے کے ہر بول پر وہ جھوم اٹھتی، اب وہ بھی پنجابی میں اٹک اٹک کر بولنا شروع ہو گئی
رب نے کرایا اے تیرا میرا میل وے
ہووے ہُن جو وی میں تے بیڑھی دِتی ٹھیل وے
اچانک ایوانا میرا ہاتھ تھام کر اٹھی اور ہم گھمن گھیریاں لگانے لگے، جب گھمن گھیریاں لگا کر تھک گئے تو ریتلی زمین پر گر کر ہانپنے لگے، ایوانا فل والیم پر ہنس رہی تھی "امیزنگ، یہ شاعری مجھے ہمیشہ یاد رہے گی، کیا تم مجھے یہ گانا لکھ کر دے سکتے ہو"، میں زمین پر لیٹے کروٹ بدلی، سیدھا ہو کر اٹھا، کمر کو جھکایا، فرشی سلام پیش کیا "نوکر حکم کا غلام ہے"، وہ زمین پر لیٹے پیٹ پکڑے ہنس ہنس دوہری ہوگئی، "ایش یقین کرو، اتنی رومانٹک شاعری میں پہلی مرتبہ سنی ہے، اوہ مائی گاڈ، یہ رات واقعی امر ہو چکی ہے"۔
تبصرہ لکھیے