ابن خلدون تاریخ، عمرانیات اور فلسفہ کے عظیم مفکر تھے۔ ان کی مشہور کتاب "المقدمہ" کو دنیا کی پہلی سوشیالوجیکل اور تاریخی تھیوری پر مبنی تصنیف مانا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے حالات تفصیل سے "کتاب العبر" کے ابتدائی حصے میں بیان کیے ہیں، جو کسی حد تک خودنوشت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اگر ابن خلدون اپنی مکمل خود نوشت لکھتے، تو وہ کچھ یوں ہوتی:
میرا نام عبدالرحمٰن ابن خلدون ہے۔ میں یکم رمضان 732 ہجری (1332 عیسوی) کو تیونس کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوا۔ میرے آبا ؤ اجداد اندلس (ہسپانیہ) کے قرطبہ شہر سے تعلق رکھتے تھے، مگر جب وہاں مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو وہ تیونس آ بسے۔ میرا گھر علم و ادب کا مرکز تھا، اور میں نے کم عمری میں ہی قرآن حفظ کر لیا، عربی ادب، فقہ، فلسفہ، منطق اور تاریخ میں مہارت حاصل کی۔
میری جوانی کا بڑا حصہ شمالی افریقہ کے مختلف درباروں میں گزرا۔ میں نے فاس، تلمسان، بجایہ اور غرناطہ میں حکومتی مناصب سنبھالے۔ ہر دربار میں میری عقل و دانش کی قدر کی جاتی، مگر سازشوں اور حسد کے باعث میں بار بار معزول ہوتا رہا۔ اسی اتار چڑھاؤ نے مجھے یہ سبق دیا کہ تاریخ صرف بادشاہوں کی کہانی نہیں، بلکہ اس میں انسانی سماج کے عروج و زوال کی گہرائی کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔
بالآخر میں نے درباری سیاست سے کنارہ کش ہو کر تنہائی اختیار کر لی۔ 1375ء میں الجزائر کے قریب ایک قلعے میں میں نے یکسوئی کے ساتھ "المقدمہ" تحریر کی، جو میری زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ اس میں میں نے پہلی بار تاریخ کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کا طریقہ وضع کیا۔ میں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ تہذیبیں بھی انسانوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں، جوان ہوتی ہیں اور بالآخر زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
بعد میں میں مصر چلا گیا، جہاں سلطان برقوق نے مجھے قاضی مقرر کیا۔ میں نے کئی بار قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا منصب سنبھالا، مگر درباری سیاست سے دل برداشتہ ہوتا رہا۔ 1406ء میں جب میں 74 سال کا تھا، تو قاہرہ میں میری زندگی کا اختتام ہوا۔
میرے خیالات صدیوں بعد یورپ کے مفکرین، جیسے میکاؤلی، مارکس اور اسپینگلر تک پہنچے۔ میں نے تاریخ کو روایتی انداز سے ہٹ کر ایک نئے تناظر میں دیکھا، اور آج بھی دنیا میری "المقدمہ" کو تاریخ اور سماجیات میں ایک سنگِ میل کے طور پر یاد کرتی ہے۔
تبصرہ لکھیے