اگر اولاد کا بس چلے تو وہ اپنے والدین کو کبھی خود سے جدا نہ ہونے دے، لیکن قدرت کا نظام ہے کہ جو آیا ہے اس نے واپس بھی اپنے خالق کی طرف لوٹ کر جانا ہے. کوئی بہت جلدی اس دنیا ئے فانی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو کچھ کا قیام طویل ہو جاتا ہے.
ہم چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، خود ماں باپ کیوں نہ بن جائیں، ہمیں ہر لمحہ اپنے والدین کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ والدین کا ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا. خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین ان کے ساتھ زیادہ عرصہ رہ پاتے ہیں، لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر لوگوں کو والدین جیسی نعمت اور اللہ تعالٰی کے اس خاص کرم کا احساس ہی نہیں ہوتا. وہ والدین کی خدمت تو دور کی بات، خیال تک نہیں رکھ پاتے. جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں، ہمارے والدین بوڑھے ہوتے چلے جاتے ہیں. پھر وہی ماں باپ جو اپنا سب کچھ قربان کر کے، اپنے خواب منوں مٹی تلے دبا کر، اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر ، اپنے دن رات کا آرام بھول کر، اپنی نیندیں حرام کر کے اپنی اولاد کو پالتے ہیں، وہی بچے بڑے اور خودمختار بن کر اپنے بوڑھے والدین کو پوچھتے تک نہیں ہیں، بلکہ ان کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں. جو ماں باپ بولنا سکھاتے ہیں انھی کے سامنے زبان درازی کرتے ہیں. اولاد کے دل اور گھر اپنے والدین کے لیے چھوٹے پڑ جاتے ہیں. جب شادیاں ہو جاتی ہیں تو بیٹے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں، عموماً بیوی کی نظر سے سب کچھ دیکھتے ہیں، پھر وہی والدین اپنی ہی اولاد کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں.
چھوٹے سے زمین کے حصے یا چند کاغذ کے ٹکڑوں کے لیے والدین سے جھگڑا کرتے ہیں، اور نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں. جوان اولاد، وہ اولاد جن کو ماں باپ اپنے ہاتھوں کا چھالا بنا کر پالتے ہیں، وہی بڑے ہونے پر ان کو بے گھر و بے آسرا کر دیتی ہے. اگر والدین میں سے کوئی ایک رہ جائے تو زندگی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے. بچے جن کو ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنے منہ کا نوالہ دے کر جوان کرتے ہیں، وہی اولاد والدین کی دوائیوں کا خرچہ، دو وقت کی روٹی تک دینے کی روادار نہیں ہوتی. لوگ اولاد نرینہ کے لیے دعائیں، مرادیں اور منتیں مانگتے ہیں، بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں، ہر معاملے میں بیٹے کو فوقیت دی جاتی ہے لیکن پھر وہی بیٹا ان کی زندگی کو عذاب بنا دیتا ہے.
والدین تو بے لوث محبت کرنے والے ہوتے ہیں. اس دنیا میں اگر کوئی مخلص ہے تو وہ ماں باپ ہیں. اگر کوئی حقیقی دوست ہے تو وہ ماں باپ کی ذات ہے. ماں باپ ہی ہیں جو ہر حال میں اپنی اولاد کا فائدہ چاہتے ہیں، اور جو خود سے بہتر مستقبل اپنی اولاد کو دینا چاہتے ہیں، لیکن بہت کم اولاد ایسی ہوتی ہے جن کو والدین کا، ان کی تکلیف کا ، ان کی قربانیوں کا احساس ہوتا ہے، ورنہ ان کو صرف اپنی ضروریات و آرام و آسائش کا ہی علم ہوتا ہے. بد قسمتی سے اکثر والدین کو یہ بھی سننا پڑتا ہے کہ آپ لوگوں نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے ؟
اکثر بچے اپنے ماں باپ کی قدر نہیں کرتے . وہ سوچتے ہیں کہ سارے فرائض صرف والدین کے ہیں، اگر انھوں نے ہماری پرورش کی ہے تو کون سا احسان کیا ہے، یہ تو ان کا فرض تھا. تو کیا اولاد کا کوئی فرض اور کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ؟ وقت کا پہیہ گھومتا ہے اور یہ ایک جیسا نہیں رہتا. کل والدین جوان تھے اوربچے ان پر انحصار کرتے تھے، ہر ضرورت کے لیے ان کی طرف دیکھتے تھے، آج وہی بچے جوان ہو گئے، اور خود مختار بن گئے، لیکن والدین کمزور اور لاغر ہو گئے. وقت نے ان کو اسی اولاد کا محتاج بنا دیا. اب وہ بچوں کی طرف اپنی ہر ضرورت کے لیے دیکھتے ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ اولاد وقت کے اشارے کو سمجھے اور اپنی ذمہ درای کو بخوبی نبھائے، اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور والدین کی خدمت کر کے جنت کما لے، لیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی بھول جاتی ہے. پھر اولاد یہ بھی بھول جاتی ہے کہ ایک دن وہ خود بھی والدین بنیں گے، اور ان کی اولاد ان کے ساتھ یہی سلوک کرے گی اور وہ کوئی شکوہ نہ کر سکیں گے. والدین کا ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا. وہ ایک دن ہمیں اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کبھی واپس نہ آنے کے لیے.
وصی شاہ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں لکھا ہے کہ !
ماں کے ہاتھ کی چوری باپ کی مشفق ڈانٹ
ساری عمر یہ میلہ تھوڑی رہتا ہے
جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہمیں والدین کی ڈانٹ ڈپٹ، روک ٹوک، نصیحتیں بہت بری لگتی ہیں، لیکن جب ماں یا باپ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے جاتے ہیں، تو ان کی وہی باتیں تڑپاتی ہیں. پھر دل پھٹتا ہے کہ کاش کہیں سے ان کی آوز سنائی دے جائے، چاہے وہ ڈانٹ ہی لیں، آ کر مار ہی لیں، لیکن جو ایک بار یہ دنیا چھوڑ جائے تو پھر واپس نہیں آتا. جب ماں باپ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ساری دنیا ویران ہو جاتی ہے.ساری خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور غم پہاڑ بن جاتے ہیں.
والدین حیات ہوں تو کوئی فکر نہیں ہوتی. بڑے سے بڑا مسئلہ بھی معمولی لگتا ہے، کیونکہ دعائیں کرنے والے ہاتھ سلامت ہوتے ہیں. پھر جن کے ساتھ ان کی ماں کی دعا ہو وہ کبھی ناکام ہو ہی نہیں سکتے. باپ کا وجود گھنے درخت کی چھاؤں جیسا ہوتا ہے، جو ہر آفت خود پر پہلے جھیلتا ہے، اور بچوں کو گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتا. نہ ہی یہ محسوس ہونے دیتا ہے کہ وہ کن حالات اور مصائب سے گزر رہا ہے، دن بھر کیا کیا برداشت کرتا ہے، کن سوچوں میں گھِرا رہتا ہےاور کیسے ان کی ضروریات پوری کرتا ہے. وہ ماں ہی ہوتی ہے جو پوچھتی ہے کہ میرے بچے نے وقت پر کھانا کھایا یا نہیں، آواز سن کر دل کی بات جان جاتی ہے. والدین کی موجودگی میں گھر جنت کا نمونہ محسوس ہوتا ہے، لیکن ان کے جاتے ہی سب بہاریں ختم ہو جاتی ہیں. بیٹیوں کا میکہ نہیں رہتا جیسے ان کا اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں رہتا. کوئی بلاوجہ یاد کرنے، بلانے والا نہیں رہتا.
خدارا اپنے والدین کی قدر کریں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے. ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، بڑھاپے میں ان کو در بدر نہ کریں، ان کی باتوں کو سنیں، انھیں سمجھیں، ان کی ضروریات کا خیال کریں، ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے، اور جب احساس ہو تو وہ انمول رشتے پاس نہ ہوں، اور صرف احساسِ ندامت رہ جائے. والدین کی خدمت کر کے ہی ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں. جن کے والدین بچوں سے خوش ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، وہی بچے ان کے جانے کے بعد دنیا میں خوشی اور سکون سے رہ پاتے ہیں.
تبصرہ لکھیے