ہوم << خلوت میں جلوت کی تلاش -عبیدالله فاروق

خلوت میں جلوت کی تلاش -عبیدالله فاروق

زندگی کے ہنگامے، شور و غل، دنیا کی مصروفیات اور نفسا نفسی کے اس طوفان میں کبھی کبھار انسان کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بہت ہیں، باتیں بہت ہیں، مشغولیات کی بھرمار ہے، مگر دل کی دنیا سنسان ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شخص خود کو چند دنوں کے لیے دنیاوی مصروفیات سے الگ کر لے، اپنے باطن کی دنیا میں جھانکنے کی کوشش کرے، تو وہ حقیقتاً اپنے اصل مقام کو سمجھ سکتا ہے۔ اعتکاف یہی موقع فراہم کرتا ہے، جہاں خلوت میں جلوت کی تلاش کی جا سکتی ہے۔

اعتکاف محض ایک عبادت نہیں بلکہ خود شناسی اور خود سازی کی ایک روحانی ورکشاپ ہے۔ جب کوئی شخص مسجد کے پُرسکون ماحول میں دنیا کی دوڑ سے نکل کر اللہ کی یاد میں مشغول ہو جاتا ہے، تو اس کا دل یکسو ہو جاتا ہے۔ دنیا کی مصروفیات سے الگ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خود کو تنہا کر لے، بلکہ یہ درحقیقت اپنے اصل مرکز یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے اندر کے شور کو خاموش کر کے اپنے رب کی آواز کو سننے کی کوشش کرتا ہے۔

تاریخ کے کئی عظیم شخصیات کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ وہ سبھی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر خلوت میں جا کر یکسوئی حاصل کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پر غور کریں تو غارِ حرا میں گزارے گئے لمحات اعتکاف کی ہی ایک صورت تھے، جہاں آپ دنیا کی ہنگامہ خیزی سے نکل کر سچائی کی روشنی کی تلاش میں تھے۔

اعتکاف ایک معتکف کے لیے صرف مسجد میں قیام کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ اس کی روحانی زندگی کا ایک سنگِ میل ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو زندگی کے بعد کے دنوں میں بھی انسان کو اثرات فراہم کرتا ہے۔ وہ جو سکون، جو طمأنینہ، جو قربِ الٰہی کے لمحات نصیب ہوتے ہیں، وہ عام دنوں میں میسر نہیں آتے۔ یہی وہ جلوہ ہے جو انسان کو خلوت میں نصیب ہوتا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج کے جدید دور میں ہم اعتکاف کو محض ایک رسم بنا چکے ہیں۔ ہم مساجد میں بیٹھ تو جاتے ہیں، مگر موبائل فون، دنیاوی باتیں، اور غیر ضروری مشاغل ہمیں اس روحانی عبادت کے اصل لطف سے محروم کر دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس موقع کو اپنی اصلاح کا ذریعہ بنائیں، اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کریں اور اپنے دل کی دنیا میں روشنی کے چراغ جلائیں۔

خلوت میں جلوت کا مطلب یہی ہے کہ انسان بظاہر تنہائی میں ہوتا ہے، مگر حقیقت میں وہ کائنات کی سب سے بڑی ہستی، اپنے رب کے قرب میں ہوتا ہے۔ جب دنیا کا شور مدھم ہو جاتا ہے، تو اللہ کی رحمت کی آواز زیادہ واضح سنائی دیتی ہے۔ اور یہی وہ جلوہ ہے جو ایک سچے معتکف کو خلوت میں نصیب ہوتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ فاروق

عبیدالله فاروق جامعہ فاروقیہ کراچی فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ بیت السلام کراچی میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ دینی و سماجی امور پر لکھتے ہیں

Click here to post a comment