ہوم << بازگشت اور خوشی - محمد عرفان ندیم

بازگشت اور خوشی - محمد عرفان ندیم

عرفان ندیم میں نے آگے بڑھ کر دستک دی اور جھونپڑی میں داخل ہو گیا۔ میں نے اس جھونپڑی تک پہنچنے کے لیے پندرہ سو کلو میٹر کا سفر طے کیا تھا اور اس طویل سفر کے دوران میں نے کئی بار واپس جانے کا سوچا لیکن بابا جی سے ملنا میری پرانی حسرت تھی اور آج یہ حسرت مجھے پہاڑوں میں گھری اس جھونپڑی میں لے آئی تھی۔ سفر جتنا دشوار تھا اس سے کہیں زیادہ خوفنا ک بھی، ڈر اور خوف کی اپنی نفسیات ہوتی ہیں اور انسان چاہتے ہوئے بھی ان نفسیات سے جان نہیں چھڑا سکتا اور میرے ساتھ بھی اس رات یہی ہوا تھا. ہر طرف اندھیرا تھا، خاموشی تھی، خوفناک آوازیں تھیں اور میں ان خوفناک آوازوں کے بیچ اکیلا کھڑا سردی اور خوف سے کپکپا رہا تھا۔ خوف اور وہم دو جڑواں بھائی ہیں اور میں اس وقت خوف کے ساتھ ساتھ وہم کا بھی شکار ہو گیا تھا۔ سانس لیتا تھا تو اپنی سانس کی آواز کسی خوفناک چڑیل کی چیخ سنائی دیتی تھی، ہاتھ ہلاتا تھا تو سامنے جنگل میں بھوت رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے، دائیں بائیں دیکھتا تھا تو مختلف شکلیں اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں، پاؤں کی طرف دیکھتا تھا تو محسوس ہوتا تھا ابھی کوئی دس پندرہ فٹ لمبا سانپ یہاں سے نکلے گا اور ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جائے گا، اوپر خلا میں دیکھتا تھا تو ہوا میں مختلف قسم کے چہرے ہنستے ہو ئے دکھا ئی دیتے تھے، سامنے دریا کی طرف دیکھتا تھا تو دور چڑیلیں اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں، میں درختوں کی طرف دیکھتا تھا تو درختوں کے پتوں سے بھی خوف آنے لگتا تھا، یہ سب کیا تھا؟ یہ وہم تھا جو خوف کے ساتھ خودبخود چلا آتا ہے.
مجھے بابا جی کے بار ے میں میرے ایک کلاس فیلو نے بتایا تھا. عرصہ پہلے کی بات ہے، میں اور میرا یہ دوست دونوں لاہور کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، ہم دونوں مختلف موضوعات پر بحث کرتے تھے اور یہ بحث ہماری کئی کئی راتیں نگل جاتی تھی، اسی طرح کی ایک رات تھی، ہم خوش رہنے کے طریقوں پر بحث کر رہے تھے، اس رات بحث کے دوران میرے دوست نے ان بابا جی کا تذکرہ کیا اور آج میں کئی سالوں بعد اس جھونپڑی میں موجود تھا۔ میں رات عشا کے بعد وہاں پہنچا تھا، آنے کا مدعا بیان کیا، بابا جی نے سنا اور صبح کا پروگرام طے ہوگیا۔
صبح ہوئی تو بابا جی مجھے ساتھ لے کر پہاڑوں کی طرف چل دیے، مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ہر طرف پہاڑ تھے اور درمیان میں کچھ جگہ خالی تھی۔ وہاں پہنچ کر وہ رک گئے، انہوں نے میری طرف دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے سامنے کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونے کا حکم دیا، میں پہاڑوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوگیا ، اب میں جو کچھ بھی بولتا تھا میری آواز پہاڑوں سے ٹکرا کے ہوبہو مجھے سنائی دیتی تھی، میں ایک بار بولتا تھا لیکن میری آواز مجھے سات دفعہ سنائی دیتی تھی۔ باباجی آگے بڑھے اور بولے ’’ ان پہاڑوں کی طرف منہ کر کے کتے کی طرح بھونک کر دکھاؤ‘‘ میں ایک دم ہل کر رہ گیا اور میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، خود کو سنبھالا اور وضاحت طلب نظروں سے باباجی کی طرف دیکھا ، ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ چھا گئی، بولے ’’ اگر آپ کو خوش رہنے کا فن سیکھنا ہے تو یہ کرنا پڑے گا‘‘ میں نے بے بسی کو سامنے کھڑے دیکھا جو میرا منہ چڑا رہی تھی، ہمت کی اور کتے جیسی آواز نکالنے کی کوشش کی، جیسے ہی خاموش ہوا، یوں لگا جیسے بہت سارے کتے مل کر مجھ پر بھونک رہے ہیں، میں نے ایک آواز نکالی تھی لیکن مجھے میری یہ آواز سات بار سنائی دی، یہ بہت ناگوار تجربہ تھا، میں نے کانوں پر ہاتھ رکھ دیے اور آواز سننے سے انکار کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد بابا جی سامنے آئے اور بولے ’’اب تم پیار کا کوئی بول بولو، کوئی نغمہ یا ترانہ پڑھو یا کسی پرندے کی آواز نکالنے کی کوشش کرو‘‘ میں نے کوئل کی آواز نکالی، یہ آواز بھی سات آوازوں میں تبدیل ہو کر سنائی دی لیکن یہ بڑا خوبصورت تجربہ تھا، یوں لگا جیسے بہت ساری کوئلیں مل کر محبت کا کوئی راگ گا رہی ہیں. یہ تجربہ بہت خوشگوار تھا، میں نے بار بار مختلف آوازیں نکالیں اور کافی دیر تک اس تجربے سے محظوظ ہوتا رہا۔
بابا جی آگے بڑھے، ہاتھ پکڑ کر ایک چٹان پر بیٹھنے کا حکم دیا اور بولے
’’ زندگی اسی بازگشت کا نام ہے، ہم زندگی میں جو کچھ بھی کریں گے وہی ہماری طرف لوٹے گا، اگر ہم گالی بکیں گے تو ہمیں گالی سننی پڑے گی، کسی کو برا کہیں گے ہمیں برا سننے کو ملے گا، کسی کی غیبت کریں گے ہماری غیبت کی جائے گی، ہم کسی سے غصے سے بات کریں گے جواب میں ہمیں بھی غصہ برداشت کرنا پڑے گا۔ اور اگر ہم کسی سے اچھے بول بولیں گے جواب میں ہمیں بھی وہی رویہ دیکھنے کو ملے گا، ہم کسی کی تعریف کریں گے ہمیں تعریف سننے کو ملے گی، ہم کوئی نغمہ یا گیت گائیں گے تو ہمیں یہی الفاظ واپس لوٹائے جائیں گے، ہم کسی پر کانٹے اچھالیں گے تو ہمیں بھی کانٹے سہنے پڑیں گے اور اگر ہم کسی پر پھول برسائیں گے تو ہمیں پھول چننے کو ملیں گے، ہم کسی کو شکست دینے کا سوچیں گے تو کوئی ہمیں شکست دے گا، ہم کسی کا اچھا چاہیں گے تو ہمارے بارے میں اچھا چاہا جائے گا اور اگر ہم کسی کا برا سوچیں گے تو ہمارے بارے میں برا سوچا جائے گا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہم کسی کے راستے میں کانٹے بچھائیں اور جواب میں ہمیں پھول چننے کو ملیں، ہم کسی کو پتھر ماریں اور وہ ہم پر پتیاں نچھاور کرے، ہم کسی کو گالی دیں اور وہ ہمارے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔ زندگی اسی باز گشت کا نام ہے اور یہی خوش رہنے کا سلیقہ بھی، آپ خود خوش رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کو خوش رکھو ،دوسروں کے راستے سے کانٹے چن کر ان کے راستوں میں پھول بچھاؤ گے تو تمہیں خوشیاں ملیں گی‘‘
وہ رکے، سانس لی اور ذرا توقف کے بعد بولے
’’تم نے بلاوٹسکی کا نام سنا ہوگا، بڑی عجیب خاتون تھی، وہ جب بھی سفر پر نکلتی اپنے بیگ میں ہمیشہ پھولوں کے بیج رکھتی تھی، سفر کے دوران ٹرین یا بس میں جہاں بھی جاتی کھڑکی سے بیج باہر پھینکتی جاتی تھی، ایک بار لوگوں نے اس سے پوچھا تم ایسا کیوں کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ برسات کا موسم ہے، پودے اگ رہے ہیں، میں یہ بیج باہر پھینک رہی ہوں، کل کو بارش کا کوئی قطرہ ان بیجوں پر گرے گا، کونپلیں پھوٹیں گی، یہ پودے بن جائیں گے اور ان پودوں پر پھول اگیں گے اور دیکھنے والوں کے لیے یہ منظر بڑا خوبصورت ہو گا. لوگوں نے پوچھا ٹھیک ہے اگر پھول کھل بھی جائیں تو تم ان کو نہیں دیکھ سکو گی کیونکہ تم تو شاید ہی دوبارہ س سڑک پر سفر کر سکو. اس نے جواب دیا کہ جب میں دوسروں کے لگائے ہوئے پھول دیکھتی ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے، یہ پھول اگانے والوں کا مجھ پر قرض ہے اور بیج پھینک کر میں یہی قرض اتارنا چاہتی ہوں.
بابا جی نے بات ختم کی اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا، میں نے ایک ماہر شاگرد کی طرح سینے پر ہاتھ رکھ کر سر آگے کو جھکا دیا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ میں خوش رہنے کا یہ فن سیکھ چکا ہوں ۔

Comments

Click here to post a comment