قرآن مجید کے مضامین میں انسان کو دو بنیادی پہلوؤں سے ہدایت دی جاتی ہے: ایک عقلی استدلال جو فکری گمراہی کو دور کرتا ہے، اور دوسرا عملی رہنمائی جو انسان کو صحیح طرزِ بندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ سورۃ الانبیاء میں فکری گمراہی کے اسباب اور اس کے نتائج کو اجاگر کیا گیا ہے، جبکہ سورۃ الحج میں عملی بندگی اور خودسپردگی کی دعوت دی گئی ہے۔ اگر ہم آج کے انسان کا جائزہ لیں تو یہ نظر آتا ہے کہ ایک طرف وہ مادی ترقی میں سرگرداں اور جدید نظریات کی گتھیاں سلجھانے میں مشغول ہے، تو دوسری طرف روحانی شعور سے بے نیاز ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دونوں سورتیں اس فکری اور روحانی غفلت کو چیلنج کرتی ہیں اور انسان کو حقیقت کے قریب لانے کی دعوت دیتی ہیں۔
سورہ الانبیاء کا بنیادی پیغام انسان کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنا اور اسے آخرت کی حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔ یہ سورت مختلف انبیاء کے واقعات کے ذریعے غافل اقوام کی تاریخ اور ان کے انجام کو نمایاں کرتی ہے تاکہ موجودہ امت ان غلطیوں سے سبق سیکھے۔ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے سورۃ الانبیاء کی ابتدائی آیات ہی انہیں یاد دلاتی ہیں کہ وقتِ حساب قریب ہے، لیکن وہ دنیا کی مستیوں میں مگن ہیں۔ اس کے بعد انسان کی فکری گمراہی کے دو بڑے اسباب بیان کیے گئے ہیں:
1. شرک اور اللہ کے وجود سے انکار
2. دنیا میں اس قدر مگن ہو جانا کہ آخرت کو بھلا دینا
پہلی بات کا جواب آیت نمبر 22 میں یوں دیا گیا ہے:لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا کہ "اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا، تو دونوں برباد ہو چکے ہوتے۔" یہ خالص عقلی استدلال ہے کہ اگر کائنات میں ایک سے زیادہ معبود ہوتے تو ان کے درمیان طاقت کی جنگ چھڑ جاتی، جس سے نظامِ کائنات درہم برہم ہو جاتا۔ آج بھی الحاد اور دہریت کے دعوے دار یہی اعتراضات دہراتے ہیں جو قدیم مشرکین کے تھے۔ دوسرا سبب یعنی دنیا کی لذتوں میں غرق ہو کر آخرت کو فراموش کر دینا، اس کا جواب آیت نمبر 35 میں یوں دیا گیا: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کہ"ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔" یہ حقیقت انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ اگر موت اٹل ہے، تو پھر دنیا کی لذتوں میں گم ہو کر حقیقت کو نظر انداز کرنا کتنا خطرناک ہے!
حضرت ابراہیمؑ کا عقلی استدلال:
انبیاء نے اپنی اقوام کو جھنجھوڑنے کے لیے محض وعظ و نصیحت کا سہارا نہیں لیا، بلکہ ان کی عقل کے مطابق ان سے مکالمہ کیا۔ حضرت ابراہیمؑ کا قصہ اس کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کی عقل کو للکارا اور ان کے عقیدے کی کمزوری کو نمایاں کیا۔ انہوں نے پہلے اپنی قوم کے معبودوں کے بارے میں سوالات کیے، پھر جب وہ لاجواب ہو گئے تو ان کے بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بتوں کو کس نے توڑا، تو کہا: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا" (الانبیاء:63) "بلکہ ان کے اس بڑے بت نے کیا ہوگا۔" یہاں حضرت ابراہیمؑ نے ایک عقلی جال بچھایا، جس میں ان کی قوم خود ہی پھنس گئی۔ وہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ بت تو کچھ نہیں کر سکتے!
حضرت داؤدؑ: مادی تیاری کے ذریعے غفلت کا خاتمہ
حضرت داؤدؑ کو لوہے سے اسلحہ بنانے کا علم سکھایا گیا تاکہ دشمن کی چالوں سے محفوظ رہیں: وعلمناه صنعة لبوس لكم لتحصنكم من بأسكم" (21:80) "اور ہم نے انہیں زرہ بنانے کا ہنر سکھایا تاکہ تمہیں جنگ میں محفوظ رکھے۔" اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ انبیاء صرف اخروی بیداری کے لیے ہی فکرمند نہیں رہتے تھے بلکہ انھیں اپنی قوم کی دنیاوی دشمن سے بچاؤ کی بھی فکر رہتی تھی تاکہ اسلحہ سے لیس ہو کر دشمن سے چوکنے رہیں.
حضرت یونسؑ: ندامت سے نجات کا راستہ
حضرت یونسؑ کی قوم غفلت میں مبتلا تھی۔ جب انہوں نے اللہ کے عذاب کی نشانی دیکھی تو فوراً توبہ کر لی، اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غفلت سے بیداری کا بہترین طریقہ رجوع الی اللہ اور سچی توبہ ہے۔ سورت کے آخر میں اہل غفلت کی قیامت کے دن حسرت بیان کی گئی: يا ويلنا قد كنا في غفلة من هذا" (21:97) "ہائے افسوس! ہم تو اس سے غافل رہے۔" جبکہ بیدار اور باصلاحیت بندوں کے لیے خوشخبری ہے: "أن الأرض يرثها عبادي الصالحون" (21:105) "زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔" یہاں پیغام ہے کہ زمین پر قیادت کا حق صرف ان کو ملے گا جو محض عبادت گزار ہی نہیں، بلکہ اہل اور باصلاحیت بھی ہوں۔
سورہ حج: فکری اصلاح کے بعد خودسپردگی:
جب انسان فکری گمراہی سے نکل کر حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے، تب وہ عمل کے میدان میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ الحج میں بندگی کے عملی مظاہر کو بیان کیا گیا ہے۔ سورت کی پہلی آیت ہی ایک زبردست انتباہ سے شروع ہوتی ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ" (22:1) "اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔" یہ آیت ہمیں جھنجھوڑ کر بتاتی ہے کہ قیامت کی شدت اتنی خوفناک ہوگی کہ انسان اپنی عقل کھو بیٹھے گا۔ وہی عقل جس کے بل بوتے پر وہ اتراتا تھا. دنیا کی عارضی آسائشوں میں مست انسان کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
دین میں سطحی ایمان کی خطرناک صورت:
آیت نمبر 11 میں ایک ایسے شخص کا ذکر ہے جو دین کو صرف ظاہری فائدے کے لیے اپناتا ہے:"وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ" کہ" کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی عبادت کنارے پر (کھڑے ہو کر) کرتے ہیں۔" یہ وہ لوگ ہیں جو دین کو اس وقت تک مانتے ہیں جب تک ان کے دنیوی مفادات پورے ہوتے رہیں، لیکن جب آزمائش آتی ہے، تو وہ دین سے ہٹ جاتے ہیں۔
قربانی کی اصل روح:
حج کے ساتھ قربانی کا ذکر ہے، جو محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ نفس کی قربانی کا علامتی اظہار ہے۔ چنانچہ آیت نمبر 37 میں ہےلَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ کہ "اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔" یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عبادات کی اصل روح اللہ کے قرب کا حصول ہے، نہ کہ صرف ظاہری رسم و رواج۔
جہاد اور بندگی: قربانی کی اعلیٰ ترین شکل:
سورۃ الحج میں جہاد کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ جہاد محض تلوار اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ یہ اپنے آپ کو اللہ کے دین کے لیے قربان کرنے کا جذبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ سورت کے آخر میں جہاں اللہ کے سامنے جھکنے کا حکم دیا گیا ساتھ ہی حکم ہے: وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ" (الحج:78) "اور اللہ کی راہ میں ویسا جہاد کرو، جیسا اس کا حق ہے۔" یہ پیغام بندگی کی معراج ہے، اپنی جان، مال، اور ہر چیز کو اللہ کے سپرد کر دینا۔
ان دونوں سورتوں کا پیغام واضح ہے، سورۃ الانبیاء میں عقلی استدلال کے ذریعے غفلت سے بیدار کیا گیا جبکہ سورۃ الحج میں عملی بندگی اور خودسپردگی کی دعوت دی گئی۔ یہی ترتیب انسانی اصلاح کا بہترین راستہ ہے۔ پہلے عقل کو بیدار کیا جائے، تاکہ وہ حق کو پہچانے، پھر دل و جان سے اللہ کے احکامات کے آگے جھک جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جو تمام انبیاء نے اپنایا، اور یہی راستہ ہر انسان کے لیے کامیابی کا ضامن ہے۔
تبصرہ لکھیے