اسلامو فوبیا کے خلاف یہ دن گزشتہ کچھ سالوں سے پندرہ مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد اسلامو فو بیا کا قلع قمع کرنا ہے۔ اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں سے خوف یا نفرت کو کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تعصب ہے جو مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، تعصب اور تشدد کا باعث بنتا ہے۔ اقوام متحدہ نے دو ہزار بائیس میں یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا، اور اس کا مقصد اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنا اور اس کے حوالے سے آگاہی پھیلانا ہے۔
15 مارچ2019 میں نیوزی لینڈ کی کرسچین چرچ میں ہوئے قتل عام کی وجہ سے یہ دن چنا گیا۔ اس افسوسناک واقعے میں نمازِ جمعہ کے دوران 51 لوگوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کے لیے سبز رنگ کو مختص کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں یہ دن منانے کا فیصلہ پاکستان کے مستقل مندوب جناب منیر اکرم کی قرارداد کے بعد کیا گیا تھا ۔ منیر اکرم نے یہ قرار داد او آئی سی کی جانب سے پیش کی تھی۔
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، دنیا کی پچیس فیصد ابادی اس کی پیروکار ہے۔ مگر دنیا بھر میں مسلمان مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلامو فوبیا بہت پہلے سے موجود رہا ہے مگر اس میں شدت 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد آئی۔اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران عالمی ابلاغِ عامہ کے کردار نے اسے بڑھاوا دیا۔
اسلاموفوبیا کی کئی صورتیں ہیں جیسا کہ مسلمانوں کے بارے میں منفی اور غلط تصورات پھیلانا، انھیں تشدد پسند، بنیاد پرست یا عورتوں پر ظلم کرنے والا بنا کر پیش کرنا۔مسلمانوں کے ساتھ ان کے مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک کرنا، انہیں ملازمتوں، گھروں یا تعلیم سے محروم کرنا۔ مسلمانوں کے خلاف جسمانی یا زبانی تشدد کرنا، جیسے کہ انہیں مارنا پیٹنا یا گالیاں دینا۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنا، انہیں دہشت گرد یا دشمن قرار دینا۔
اسلاموفوبیا ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے مسلمانوں اور معاشرے دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے، اور انہیں معاشرے میں مکمل طور پر حصہ لینے سے روکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم اور تناؤ کو فروغ ملتا ہے۔
اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے مثبت اور درست معلومات پھیلائی جائیں۔ دنیا کو اسلام اور مسلمانوں کا امن پسند اور روشن چہرہ دکھایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے بارے میں منفی دقیانوسی تصورات کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔
تبصرہ لکھیے