ہوم << آخر کب تک یہ جنگ لڑتے رہیں گے؟ حافظ انس اسلام

آخر کب تک یہ جنگ لڑتے رہیں گے؟ حافظ انس اسلام

آئیے، وقت نکال کر اس ایک جنگ کو دیکھ اور سمجھ لیں؛ جس جنگ سے تمام لڑائیاں پھوٹتی اور برآمد ہوتی ہیں، جس جنگ کے آگے کسی دوسری جنگ کی کوئی حیثیت نہیں. وہ واحد اساسی جنگ ؛جو شیطان کی اللہ اور اشرف المخلوقات کے ساتھ ابدی جنگ ہے اور بنیادی طور پر یہ دنیا اسی ایک عدد جنگ کا میدان ہے، وہی حقیقی ہے اور وہی اصل. اور جو اس جہان کو اس جنگ کا میدان نہیں مانتا؛ اسے پھر ابھی تک کائنات کی تخلیق کا اصل و حقیقی مقصد، اسکیم و منصوبہ ہی نہیں معلوم !

۔ یہ زمین ؛ جو کہ شرک و توحید کے مابین جنگ کا میدان ہے،
۔ طاغوت کی؛ اللہ تعالیٰ کےساتھ مقابلے بازی کا میدان ہے،
۔ باطل کی؛ حق کےساتھ مخاصمت، تصادم اور کشمکش کا میدان ہے،
۔ کفر اور اسلام کے درمیان لڑائی کا میدان ہے،
۔ ظالم و سفاک شیطان کی؛ رحمان و رحیم کیساتھ عداوت و بیر کا میدان ہے،
۔ شر و خیر کے زبردست ہمہ وقتی معرکے کا میدان ہے

کوئی جن و انس اس جنگ سے باہر رہ کر نہیں جی سکتا، ایک آدھے سیکنڈ کےلیے بھی کوئی خود کو اس جنگ سے غیر متعلق نہیں کرسکتا، اس جنگ کا انکار اسی طرح ناممکن ہے ؛ جیسے موت کا . ہاں البتہ یہاں شیطان کی پیدا کردہ لڑائیاں بےشمار ہیں اور شیطان کی قائم کردہ لڑائیوں میں حق و باطل نہیں ہوتا ہوتا، بلکہ ہر طرف باطل و باطل ہوتا ہے اور وہ ہر باطل کو حق کا نام دیتا ہے. چنانچہ ہوتا یہ ہے کہ ؛ ہم (ان شیطانی جنگوں میں) جس بھی سائیڈ پہ جا کھڑے ہوں ؛ شیطان ہی کی صف میں ہوتے ہیں، جہاں ہر کوئی اپنے سے دوسرے کو باطل سمجھتے ہوئے، ایک دوسرے پر شب خون مارنے کو عین حلال سمجھ رہا ہوتا ہے ! (انا للّٰہ وانا الیہ راجعون)

سوچیں جب مسلمان ہی اللہ رسول کو چھوڑ کر، شیطان کے برپا کیے ہوئے باطل میدانوں میں؛ حق کے نعرے مارتے ہوئے کود پڑیں تو معاشروں کا کیا حال ہوگا ؟ عصر حاضر کی صورتحال تو ہمارے سامنے ہی ہے، مگر شیطان بھلا کب اور کس وقت کسی انسان کے حق میں ہوا ہے؟ وہ تو کافر کا بھی اتنا ہی دشمن ہے جتنا مسلمان کا ، وہ تو ہر ہر انسان کو دوزخ میں دیکھنا چاہتا ہے اور ہر انسان کو دوسرے انسان کا جانی دشمن بنا دینا چاہتا ہے، وہ ہر کسی کو ظالم دیکھنا چاہتا ہے اور پھر وہ آپ کو کبھی کسی حقیقی مظلوم کے ساتھ نظر نہیں آئے گا ؛ یعنی ہر شخص ہی ظالم اور ہر شخص ہی مظلوم اور شیطان بس ظلم کا ساتھی . ان جنگوں میں جو شخص کہیں ایک جگہ پر مظلوم ہوتا ہے تو دوسری جگہ وہ ظالم بھی ہوتا ہے. انسان کے ساتھ شیطان کی اس عداوت کا اندازہ نہیں کر سکتے آپ !

لیکن یہ بات کس نے بتانی تھی دنیا کو ؟ خدا کی اس زمین پر مسلمان کے سوا آخر کون ہے جس نے جمیع انسانیت کو اس کے بارے میں بتانا تھا؟ کہ اگر ہم شیطان کے سجائے ہوئے میدان میں داخل ہوئے تو ہم گئے، شیطان ہم میں سے کسی ایک کا بھی سگہ نہیں! اس نے ہمیں جو جنگیں تھمائی ہیں ؛ شخصیات کی، پارٹیوں، جماعتوں و فرقوں کی، وطنوں و علاقوں، صوبوں و ضلعوں کی، اداروں و کمپنیوں کی، مافیاز کی، این جی اوز کی، کارپوریشنز کی، رنگ، نسل، ذات پات اور زبانوں کی، کیرئیر اور عہدوں، سیٹوں، کرسیوں اور ڈگریوں کی، ناموری اور شہرت کی، آپ کو اپنی ذات، اپنے نفس اور اپنی عقل کی، اپنے سماج، اپنی ثقافتوں اور کلچروں کی، اپنے وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی، اپنے بزنسوں اور دکانوں کی، اپنے مادی مفادات اور ٹکے ٹکے کی چیزوں کی، صنف نازک اور روپے، پیسے کی، نت نئے تعصبات، ردعمل اور انتقام کی، ترقی کے نام کی، حسد، حرص اور ہوس کی ۔۔۔۔۔۔ آپ تھک جائیں گے؛ مگر جنگیں ختم نہیں ہوں گی.

ان جنگوں میں زندگیاں کھپا دینے کا نتیجہ و ثمر کیا ہے بھلا ؟
۔ انسان ایک صحت مند زندگی جینے سے گیا
۔ ہر انسان ڈپریشن، انزائٹی، فرسٹریشن، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، جگر، گردوں، پھیپھڑوں اور شوگروں کا مریض بن کر رہ گیا
۔ اسپتالوں کی بھرمار ہے اور ہر اسپتال پر رونق ہے
۔ پیار، محبت، الفت، احساس، ہمدردی، وفا، خلوص، قربانی، دوستی، بھائی چارہ، اتفاق، اتحاد، ادب و احترام، اکرام، تقدس، حرمت، خیال، لحاظ ملاحظہ، رشتے داریاں، خاندان، تعلقات، صلہ رحمی، مودت، انسیت، توقیر، مہمان نوازی، اعلی ظرفی، مثبت خیالی، میل جول، سادگی، صبر و شکر، درگزر، عاجزی، قناعت، معافی، عافیت، مسرتیں، راحتیں، برکتیں، خوشحالیاں، تقوی، خدا خوفی ؛ انسان نے اپنا سب کچھ ہی گنوا لیا ہے!
۔ ہر انسان ایکدوسرے سے خطرے محسوس کر رہا ہے،
۔ ہر طرف بےیقینی اور بےاعتمادی ہے،
۔ جیلیں اور پاگل خانے بھر گئے ہیں،
۔ یہاں تک کہ اب انسان خودکشی کرلینے میں سکون دیکھ رہا ہے!

آئیے،
ان سب (شرکیہ، طاغوتی و باطل) جنگوں کا ہمیشہ کےلیے بائیکاٹ کریں، سخت فیصلے لینا شروع کریں، عزم مصمم باندھیں ؛ شیطان کی اس بدترین و گھٹیا، خونی غلامی سے نکل کر، صرف ایک اللہ رحمن کے مخلص و پرامن بندے بن جائیں. جنگ تو سب نے ایک یہی سمجھنی تھی. یقین مانیے !
روز روز کی درجنوں لڑائیوں اور لاشوں کو Understand کرنے کےلیے بیٹھ کر مغز ماریاں اور ذہنی عیاشیاں کرنا ؛ بذاتِ خود ایک شیطانی و جاہلی عمل ہے؛ جس کا مطلب ہے کہ ہم کتے کو کنویں سے نہیں نکالنا چاہتے . سردست ان دانشوروں اور قلم کاروں کا بائیکاٹ کیجیے جو آپ کو شیطانی جنگوں میں دھکیلتے ہیں اور ان کی جھوٹ موٹ، خلط ملط Study کرواتے ہیں ! یہ آپ کو خوب لذیذ نوالہ بنا کر، شیطان کے حوالے کرنے کا کام کرتے ہیں، اور ان کا کیا رول ہے ؟ جبکہ ایک مومن و متقی کی واحد خواہش شہادت فی سبیل اللہ کی ہوتی ہے، اور کسی جاہلی موت سے وہ اسی طرح پناہ مانگتا ہے، جیسے وہ دوزخ سے نجات چاہتا ہے !