ضلع جہلم کی تحصیل سہاوا سے کوئی سترہ کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ڈھوک دھمیک کہتے ہیں. اس گاؤں سے باہر اس شخص کا مزار ہے جس نے برصغیر پاک و ہند میں پہلی مرتبہ دہلی کی مسلم ریاست کی بنیاد ڈالی، جو تقریباً آٹھ سو سال تک قائم رہی. یہ شہاب الدین غوری کا مزار ہے جسے ۱۹۹۴ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے بنوایا تھا۔
گو کہ شہاب الدین غوری سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے محمود غزنوی نے ۱۰۰۱ ء اور ۱۰۲۷ ء کے درمیان ہندوستان پر سترہ بار حملے کیے تھے، لیکن اس نے فقط لاہور اور پنجاب کو ہی باقاعدہ اپنی حکومت میں شامل کرنے پر اکتفا کیا تھا. اس کے ان حملوں نے ہندوستان کی سماجی ، ثقافتی اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنا تو کجا اس پر کوئی دیرپا اثر بھی نہیں چھوڑا تھا۔ البتہ محمود غزنوی کی ان فتوحات کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے سنٹرل ایشیاء کے طالع آزماء حکمرانوں کے لیے ہندوستان کے دروازے کھول دیے۔
موجودہ وسطی افغانستان کے ایک صوبے کا نام غور ہے جس کا دارلحکومت فیروز کوہ ہے. آج سے ہزار سال پہلے یہ شہر دنیا کا امیر ترین شہر تھا اور ایک بہت بڑی سلطنت کا دارلحکومت تھا جسے غوری سلطنت کہتے ہیں۔ شہاب الدین غوری کے دور میں غوری سلطنت نیشا پور ایران سے لے کر بنارس و اجمیر اور بنگال تک اور بحیرہ کیپسین سے لے کر دریائے سندھ اور دریائے بیاس تک پھیلی ہوئی تھی. اس میں موجودہ ترکمانستان، تاجکستان، افغانستان، ایران، پاکستان، بنگلہ دیش ، انڈین گجرات اور سارا جنوبی ہندوستان شامل تھا .
ابوالفضل محمد بن حسین بیہقی گیارھویں صدی عیسوی کا ایک بہت مشہور تاریخ دان ہے ۔ اس کی کتاب ” تاریخ بیہقی “ نہ صرف غزنوی اور غوری دور کی سب سے مستند تاریخی دستاویز مانی جاتی ہے، بلکہ اسے فارسی ادب کا ”ماسٹر پیس “ بھی کہا جاتا ہے. اس نے یہ کتاب ۱۰۵۰ء میں لکھنی شروع کی، اور ۱۰۶۵ء میں اسے مکمل کیا. اس کتاب کے مطابق موجودہ وسطی افغانستان میں موجود کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کو غور کہتے ہیں. ان پہاڑوں میں کئی قبیلے آباد تھے، یہ قبیلے ایرانی النسل تاجک تھے اور اس علاقے کی نسبت سے غوری کہلاتے تھے. انھیں فارسی میں شنسبانی بھی کہتے ہیں. ان قبائل کا مذہب بدھ مت تھا. امیر سوری نے ۹۵۵ء میں پہلی مرتبہ ان غوری قبائل کو متحد کر کے غوری سلطنت کی بنیاد رکھی. امیر سوری کی اس سلطنت کو عباسی خلیفہ کی سند قبولیت حاصل تھی. امیر سوری کے باپ کا نام امیر بنجی تھا. امیر سوری کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا محمد ابن سوری تخت پر بیٹھا۔ ۱۰۱۱ء میں محمود غزنوی نے غوری سلطنت کے دارالحکومت فیروز کوہ پر قبضہ کر لیا، اور محمد ابن سوری اور اس کے بیٹے ابو علی بن محمد کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ غزنی لے گیا ، جہاں محمد سوری نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
ابوالفضل بیہہقی لکھتا ہے : ” گو کہ امیر سوری، محمد بن سوری اور ابو علی محمد کے نام مسلمانوں جیسے تھے لیکن ان کا مذہب بدھ مت ہی تھا. ابو علی محمد نے دوران قید اسلام قبول کیا اور محمود غزنوی اس کی ذہانت، شجاعت اور معاملہ فہمی کی صلاحیت سے بہت متاثر تھا، لہذا اس نے ابو محمد کو غور کا گورنر بنا کر غور واپس بھیج دیا. ابو علی محمد کے مسلمان ہونے کے بعد بڑی تیزی سے غور قبائل میں اسلام پھیلا اور جلد ہی سارے غور قبیلے مسلمان ہوگئے.“
مشہور ایرانی تاریخ دان منہاج السراج گورگانی نے ۱۲۲۷ء میں ایک کتاب ”طبقات ناصری“ تحریر کی، جس میں اس نے بڑی تفصیل سے غوری خاندان کے آغاز اور عروج و زوال کے بارے میں لکھاہے، اور اس نے اپنی کتاب میں بیہقی سے اتفاق کیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق ”۱۱۴۰ء میں سلجوقی سلطان اور ملک شاہ کے بیٹے احمد سنجر نے غور پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت غور پر معزالدین حسین کی حکومت تھی. معزالدین حسین نے سلجوقوں کی اطاعت قبول کرلی. اس کے بعد اس کا بیٹا بہاؤالدین سام ۱۱۴۹ء میں غور کے تخت پر بیٹھا، لیکن چند مہینوں کے بعد ہی اس کا انتقال ہوگیا اور اس کا چھوٹا بھائی علاؤالدین حسین غور کا حکمران بن گیا. علاؤالدین ہی دراصل وہ غوری حکمران ہے جس نے سلجوقوں کو خراج دینے سے انکار کردیا، اور پہلی بار غور سے باہر نکل کر سارا افغانستان فتح کیا، اور اپنے لیے سلطان المعظم کا لقب اختیار کیا. ۱۱۶۳ ء میں علاؤالدین حسین کے انتقال کے بعد قبائلی جرگے نے بہاؤالدین سام کے بڑے بیٹے غیاث الدین محمد کو غور کا حکمران منتخب کر لیا. غیاث الدین محمد غوری کی اصل طاقت اس کا چھوٹا بھائی معزالدین محمد تھا، جسے تاریخ شہاب الدین غوری کے نام سے جانتی ہے.“
غیاث الدین کا زیادہ وقت امور سلطنت اور داخلی امور کی انجام دہی میں گزرتا، جبکہ شہاب الدین نے غوری سلطنت کی سرحدوں کو پھیلانے کی ذمہ داری لے رکھی تھی. اس نے ۱۱۷۳ء میں غزنی کو فتح کر کے غزنوی سلطنت کا خاتمہ کیا اور پھر برصغیر کا رخ کیا. ۱۱۷۵ء میں ملتان کی اسماعیلی حکومت کو شکست دے کر قبضہ کر لیا، اسی سال اس نے اچ شریف کو بھی غوری سلطنت میں شامل کیا. ۱۱۷۸ء میں اس کا مقابلہ پہلی بار گجرات کی راجپوت ریاست چلوکیا سے ہوا. سروہی کے قریب لڑی جانیوالی اس جنگ میں غوری لشکر کو شکست ہوئی. ۱۱۸۶ء میں اس نے لاہور بھی فتح کرلیا. لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے لاہور کو مرکز بنا کر ہندوستان کے راجپوتوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کر دی.
پرتھوی راج چوہان اس وقت وسطی اور جنوبی ہند کا سب سے بڑا حکمران تھا. آر بی سنگھ کے مطابق اس کی سلطنت مشرق میں دریائے ستلج سے لے کر مغرب میں دریائے بٹوا تک، اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر شمال میں ماؤنٹ ابو تک پھیلی ہوئی تھی، جس میں موجودہ ہندوستان کے راجھستان، گجرات ، دہلی، ہریانہ، پنجاب، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اترکھنڈ اور اتر پردیش شامل تھے. ۱۱۹۱ء میں ہریانہ کے ضلع کرنال کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ترائن میں اس کا مقابلہ پرتھوی راج چوہان سے ہوا. ترائن کا موجودہ نام تراڑی ہے، اور یہ جنگ تاریخ میں ترائن کی پہلی جنگ کے نام سے مشہور ہے. اس جنگ میں ہندوستان کے تقربیاً سو راجہ مہاراجہ پرتھوی راج چوہان کی قیادت میں متحد تھے. پرتھوی راج کا پلڑا بھاری رہا. شہاب الدین غوری اس جنگ میں زخمی ہوا اور شکست کے بعد بڑی مشکل سے جان بچا کر غور پہنچا. اس شکست نے اس کے دل و دماغ پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ اب اس کے دن رات اس ہزیمت کا بدلہ لینے کی منصوبہ بندی میں گزرنے لگے. گورگانی نے لکھا ہے کہ اس نے جنگ کے موقع پر جو لباس پہن رکھا تھا، وہ اس کے زخمی ہونے کی وجہ سے خون آلود ہو گیا تھا، اس نے وہ خون آلود لباس اس وقت تک زیب تن کیے رکھا، جب تک اس نے ترائن کی شکست کا بدلہ نہ لے لیا. تاریخ فرشتہ میں بھی کچھ اسی قسم کی تفصیل درج ہے کہ ترائن کی پہلی جنگ میں شکست کے بعد شہاب الدین غوری نے نہ تو اپنا خون آلود لباس بدلا نہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اور نہ ہی شاہی حرم میں داخل ہوا۔
اگلے ہی سال ۱۱۹۲ء میں وہ دوبارہ پوری تیاری کے ساتھ واپس آیا. اس کے ساتھ بہترین ترک تیرانداز گھڑ سوار تھے، جن کا راجپوتوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا. ترائن کے اسی میدان میں ایک بار پھر سارے ہندوستان کی متحدہ فوجیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ پرتھوی راج چوہان کی قیادت میں اس کے سامنے تھیں، لیکن اس دفعہ میدان شہاب الدین غوری کے ہاتھ رہا. پرتھوی راج عبرت ناک شکست کے بعد میدان جنگ سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے سرسا کے قریب گرفتار ہوااور مارا گیا. اکثر تاریخ دان اس سے اتفاق کرتے ہیں، جن میں منہاج السراج گورگانی، ابوالقاسم فرشتہ(تاریخ فرشتہ)، ابوالفضل ( آئین اکبری)، ستیش چندرا، بپن چندرا، ارجن دیو، رومیلا تھا پر اور آر ایس شرما شامل ہیں، سب ہی اس نظریے کے قائل ہیں کہ پرتھوی راج جنگ میں مارا گیا تھا. جبکہ حسن نظامی، آر بی سنگھ ، پروفیسر براس ورتھ اور چند دوسرے تاریخ دانوں کے نزدیک پرتھوی راج گرفتار ہوا، اور شہاب الدین غوری نے معاف کر کے اسے اپنا نائب بنا کر اجمیر کے تخت پر بٹھا دیا، لیکن چند ہی دنوں کے بعد وہ شہاب الدین غوری کے خلاف سازش کرتا ہوا پکڑا گیا اور اسے موت کی سزا دے دی گئی. اس کی موت کے بعد غوری نے اس کے بیٹے گوبندراجہ کو اس کی جگہ تخت پر بٹھایا.
براج بھاشا کے مشہور شاعر چندبدرآئی نے پرتھوی راج پر ایک نظم ”پرتھوی روسو “لکھی ہے، جس میں پرتھوی راج کو افسانوی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے، اور اسے مافوق الفطرت طاقت کا مالک بیان کیا گیا ہے. اس نظم کے مطابق پرتھوی راج اور غوری کے درمیان بائیس جنگیں ہوئیں، اکیس جنگوں میں پرتھوی راج کو فتح ہوئی اور اکیس مرتبہ پرتھوی نے غوری کو گرفتار کیا، لیکن ہر مرتبہ صلہ رحمی کا سلوک کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا. بائیسویں مرتبہ شہاب الدین جیت گیا اور پرتھوی راج کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ غور لے گیااور اسے اندھا کروا دیا، جہاں اس نے موقع پا کر شہاب الدین کو قتل کر دیا لیکن کوئی ایک بھی تاریخ دان چند بدرآئی کے اس نقطہ نظر کی تائید کرتا نظر نہیں آتا. بالی وڈ کی فلم ”سمراٹ پرتھوی راج چوہان“ چند بدرآئی کی اسی کویتا پر مبنی ہے .
ترائن کی دوسری جنگ میں شہاب الدین غوری کی فتح ایک تاریخ ساز لمحہ تھا جس نے ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی. اس فتح نے نہ صرف سلطنت دہلی کے قیام کی راہ ہموار کی جو آٹھ سو سال تک قائم رہی، بلکہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اس سرزمین پر آکر آباد ہوگئے جس نے اس خطے کی تاریخ ہی بدل دی. تاریخ نگار اس جنگ میں فتح کو ملازکرد کی جنگ سے تعبیر کرتے ہیں، جس میں فتح نے اناطولیہ کو ترکی میں تبدیل کر دیا تھا. اسی طرح ترائن کی دوسری جنگ کی فتح نے ہندوستان کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے اور ہندوستان برصغیر پاک و ہند بن گیا۔
پرتھوی راج کے بیٹے کو اجمیر کے تخت پر بٹھانے کے بعد شہاب الدین غوری نے اپنے آزاد کردہ ترک غلام قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا قائم مقام بنایا اور غور واپس لوٹ گیا۔ قطب الدین ایبک نے ۱۱۹۲ء میں دہلی فتح کیا، اور غوری کی خواہش پر اس فتح کی یاد میں دہلی میں ۱۱۹۳ء کو ایک شاندار مسجد ”قوت السلام “تعمیر کروائی، جو اس خطے کی پہلی مسجد سمجھی جاتی ہے. اس مسجد کے صحن میں پوری شان وشوکت سے کھڑا 238 فٹ ( 72 میٹر ) اونچا قطب مینار ایک ہزار سال کے بعد آج بھی اس فتح کی یاد دلاتا ہے۔ قطب الدین ایبک نے دہلی کو مرکز بنانے کے بعد ۱۱۹۹ء تک بنگال، اڑیسہ، بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ، پنجاب، راجھستان اور گردونواح کے تمام علاقے فتح کر کے وسطی ہندوستان میں ایک بہت مضبوط سلطنت قائم کرلی، جسے ختم کرنا اب ہندوستان کے راجے مہاراجوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ ۱۲۰۰ء میں شہاب الدین نے اپنے بھائی غیاث الدین کی مدد سے علاؤالدین محمد خوارزم کو شکست دے کر ایران اور تاجکستان پر قبضہ کیا۔ ۱۲۰۲ ء میں غیاث الدین کے انتقال کے بعد شہاب الدین غور کے تخت پر بیٹھا۔
۱۲۰۶ء میں گوجرانوالہ پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کر دی. وہ قطب الدین ایبک کی مدد کے لیے ایک بار پھر ہندوستان آیا ، اور بغاوت کو سختی سے کچلنے کے بعد باقی کے معاملات کو قطب الدین ایبک کے ہاتھوں میں چھوڑ کر وہ واپس غور روانہ ہوا، لیکن پندرہ مارچ ۱۲۰۶ء کی رات کو جب وہ ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوا کے ایک گاؤں دھمیک کے قریب رات قیام کے لیے رکا تو کھوکھروں نے رات کے اندھیرے میں اس کے قافلے پر حملہ کر دیا. شہاب الدین غوری اس وقت اپنے خیمے کے باہر عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا ۔ایک اڑتا ہوا تیر اس کی گردن میں آکر لگا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوا اور چند ہی گھنٹوں کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ بعض روایات کے مطابق یہ حملہ اسماعیلی فدائیوں نے کیا تھا. اسے وہیں دفن کردیا گیا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
حسن نظامی نے ”تاج المعسیر “ میں لکھا ہے کہ ایک بار ایک درباری نے اس سے پوچھا کہ آپ کی تو کوئی اولاد نہیں، آپ کے بعد اتنی بڑی سلطنت کا وارث کون ہوگا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ”بادشاہوں کے تو ایک یا دو وارث ہوتے ہیں، میرے وارث میرے یہ کئی سو ترک بیٹے ہیں، جو میرے بعد میرا نام زندہ رکھیں گے.“ اور یہی ہوا. اس کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت اس کے آزاد کردہ غلاموں میں تقسیم ہو گئی، جنھیں اس نے بیٹوں سے بڑھ کر پالا تھا، اور شہزادوں کی طرح ان کی بہترین تعلیم و تربیت کی تھی۔
۱ - قطب الدین ایبک نے ۱۲۰۶ء میں دہلی کی سلطنت کی بنیاد رکھی اور خاندان غلاماں کی حکومت کا آغاز کیا.
۲ - نصیرالدین قباچہ ۱۲۱۰ء میں ملتان کا حکمران بنا۔
۳ - غزنی تاج الدین یلدوز کے حصے میں آیا۔
۴ - اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی نے بنگال کی حکومت سنبھالی ۔
اس کی قبر پر قطب الدین ایبک نے ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا تھا۔مغل دور تک تو اس مقبرہ کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوتی رہی، لیکن برٹش راج میں یہ بے توجہی کا شکار ہوا، اور گردش دوراں کی ٹھوکروں نے اس کا رنگ و روپ اس سے چھین لیا۔ وقت کی دھول اس پر جمتی رہی اور یہ کھنڈر بن کر رہ گیا۔
پاکستان بنا، لیکن اہل پاکستان کو یاد بھی نہ رہا کہ امتداد زمانہ کے شکار اس مقبرے میں وہ شخص دفن ہے جس نے برصغیر میں پاکستان کے قیام کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ پچاس سال تک یہ کھنڈر نما مقبرہ پاکستانیوں کی توجہ کا منتظر رہا۔ ۱۹۹۰ء میں پاکستان نے اپنے میڈیم رینج میزائل پروگرام کی شروعات کیں تو ڈاکٹر عبدالقدیر نے جنھیں اسلامی تاریخ پر بھی بہت عبور حاصل تھا، انھوں نے اس میزائل کا نام انڈیا کے پرتھوی میزائل کے مقابلے میں غوری میزائل رکھا۔ انڈیا نے اپنے پرتھوی میزائل پروگرام کا آغاز ۱۹۸۳ء میں کیا تھا۔ اسی دوران ڈاکٹر عبدالقدیر کو شہاب الدین غوری کے مقبرے کی زبوں حالی کی خبر ملی، تو انھوں نے ۱۹۹۴ ء میں اسلام اور پاکستان کے اس نامور سپوت کا مقبرہ از سر نو تعمیر کروایا۔ تقریباً دس سال پہلے مجھے اس مقبرے کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ بہت دلکش جگہ ہے جہاں جا کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ ایک خوبصورت پارک کے بیچوں بیچ اونچے تخت پر بنا یہ مقبرہ خوبصورتی اور فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے سامنے غوری میزائل کا ایک ماڈل بھی ایستادہ ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ایڈمینڈ براس ورتھ Edmond Brosworth نے اپنی کتاب “ غورید انسائیکولوپیڈیا ایرانیکا “ Ghurids Encyclopaedia Iranica میں لکھا ہے : اس جنگ کے نتائج بہت تاریخ ساز تھے، جنھوں نے برصغیر کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس جنگ میں غور یوں کی فتح اس قدر مکمل تھی کہ آنے والی صدیوں میں اس خطے کی سیاسی، جغرافیائی، مذہبی، سماجی، لسانی اور ثقافتی حیثیت ہی بدل کر رہ گئی“ ۔
شہاب الدین غوری اور اس کا یہ مقبرہ، دونوں ہماری تاریخ کے وہ گمشدہ باب ہیں جو کب کے ہمارے دلوں کے نہاں خانوں سے اور دماغ کی یاد داشت سے محو ہو چکے۔ ہماری نوجوان نسل کو تو شاید معلوم ہی نہیں کہ کبھی یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ تھے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ تاریخ کے یہ بھولے سبق یاد کیے جائیں۔ کیونکہ حال ہی میں انڈیا کی مودی حکومت نے پرتھوی راج چوہان پر فلم بنا کر تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ انھوں نے نادانستگی میں ہمیں ہماری بھولی ہوئی تاریخ یاد دلانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں، تاکہ انتہا پسند ہندؤں کے مذموم پروپیگنڈے کا علاج ہوسکے. اپنی تاریخ کےان گمشدہ اوراق سے واقفیت ہماری سیاسی اور تاریخی بقاء اور سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنی نوجوان نسل کو اس مقبرے کی سیر کے لیے لے جائیں۔ انھیں شہاب الدین غوری کے بارے میں بتائیں، انھیں ترائن کی اس دوسری جنگ کی اہمیت سے آگاہ کریں جس نے ہندوستان میں پہلی اسلامی ریاست اور بعد ازاں ہمارے پیارے ملک پاکستان کے قیام کی بنیاد رکھی۔ اگر ترک ملازکرد کی جنگ میں فتح کے جشن کو یوم قیام ترکی کے طور پر منا سکتے ہیں، تو ہم کیوں ترائن کی جنگ میں فتح کے دن کو یوم قیام پاکستان کے طور پر نہیں منا سکتے. یہ کام ہمارے تعلیمی ادارے اور نظام تعلیم شاید نہ کرسکے، اس اہم کام کی ذمہ داری ہمیں خود ہی ادا کرنی ہے ۔
مینارہ جام
کہاجاتا ہے کہ یہ قطب مینار کا جڑواں بھائی ہے
موجودہ افغانستان کے صوبہ غور کے ایک انتہائی دوردراز علاقے میں دریائے ہاری کے کنارے کھڑا مینارہ جام بھی انہی دنوں تعمیر کیا گیا جب قطب مینار تعمیر ہوا تھا
کہتے ہیں کہ دہلی کی فتح کی خوشی میں شہاب الدین غوری نے دو مینار بنانے کا حکم دیا تھا ایک قطب مینار جو دہلی میں تعمیر ہوا اور دوسرا مینارہ جام جو شہاب الدین کے دارلحکومت غور میں تعمیر کی گیا یہ ۶۵ میٹر(۲۱۳فیٹ ) اونچاہے اور افغا نستان کا پہلا آثار قدیمہ ہے جو ورلڈ ہیرٹج لسٹ میں شامل کیا گیا ۔
دہلی کا قطب مینار
کی اوپری منزل
قطب الدین ایبک نے غوری کی خواہش پر اس فتح کی یاد میں دہلی میں ۱۲۹۳ء کو ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی جو اس خطے کی پہلی مسجد سمجھی جاتی ہے اس مسجد کے صحن میں پوری شان وشوکت سے کھڑا دوسو اڑتیس فٹ ( ۷۲ میٹر ) اونچا قطب مینار ایک ہزار سال کے بعد آج بھی تراڑی کی جنگ کی فتح کی یاد دلاتا ہے
اسے یو نئسکو کی ورلڈ ہیرٹج لسٹ میں شامل کیا گیا ہے
تبصرہ لکھیے