کبھی رنجش، کبھی راحت، کبھی آزار تھا شاید
کہانی کا وہ الجھا سا کوئی کردار تھا شاید
دلائل پاس تھے پھر بھی ہم اس سے ہار جاتے تھے
بہت سادہ تھے ہم یا وہ بہت مکار تھا شاید
میری خوبی کوئی اس پر کبھی کھلتی بھلا کیسے
مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے بہت بیزار تھا شاید
زمانے بھر نے جب دیکھا، اسے ہنستے ہوئے دیکھا
بہت جی دار بندہ تھا، یا پھر فنکار تھا شاید
کئی راتیں تسلسل سے وہ کھنڈر خواب میں آیا
میرے مدفون جذبوں کا کوئی دربار تھا شاید
وہ سوکھا پیڑ جس پر منتوں کے سرخ دھاگے تھے
سنا ہے پہلے وقتوں میں گل و گلزار تھا شاید
ہزاروں کٹ مرے لیکن زباں کا قفل نہ ٹوٹا
امیرِ شہر بھی میری طرح لاچار تھا شاید
کبھی رنجش، کبھی راحت، کبھی آزار تھا شاید - نیر تاباں

تبصرہ لکھیے