بختِ ویراں کا کوئی نقشِ جمیل نہیں
میں کوئی زخم نہیں، زخم کی تکمیل نہیں
یہ جو زنجیر ہے، پہلو میں چبھن رکھتی ہے
یہ قفس قید سہی، قید میں تخفیف نہیں
خواب بکھرے تو یہی سوچ کے چپ رہتے ہیں
زندگی کھیل سہی، کھیل میں ترغیب نہیں
تم نے دنیا کی حقیقت تو بہت جان لی
پر تمہیں عشق میں دیوانگی تسخیر نہیں
حرفِ صدقہ جو زباں پر تھا، کہا ہی نہ گیا
بات کرنے سے بھی اب بات میں تاثیر نہیں
دل کی دیوار پہ بس نام لکھا رہ جائے
یہ مرا شہر ہے، بزمِ کوئی تحریر نہیں
ہو سکے تو مرے اشکوں کو چھپا کر رکھنا
یہ کسی طور بھی احمد کی جاگیر نہیں
تبصرہ لکھیے