میں 1987ء میں اپنے دوستوں کے ساتھ شاہراہِ قراقرم کے راستے چین کے پہلے شہر کاشغر گیا تھا۔ واپس آ کے اس کا سفرنامہ ”قراقرم کے پار“ لکھا۔ سفرنامہ تو لکھ لیا، لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کسی اخبار یا رسالے میں کیسے شائع کروایا جائے؟… اس زمانے میں ایک بڑا مشہور اور خوبصورت رنگین اردو رسالہ شائع ہوتا تھا "ماہنامہ رابطہ انٹرنیشنل"۔ یہ رسالہ شائع بھی ملک کے باہر سے ہوتا تھا اور فروخت بھی زیادہ تر غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں میں ہی ہوتا تھا۔ اس کا دفتر البتہ کراچی میں تھا اور ایڈٹ بھی یہیں ہوتا تھا۔ یہ ہانگ کانگ میں پرنٹ ہوتا تھا اور سارے عرب ممالک، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور جہاں جہاں پاکستانی ہوتے تھے، وہاں فروخت ہوتا تھا۔ اس زمانے میں جب عام رسالوں کی قیمت پانچ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، اس وقت رابطہ کی قیمت پچاس روپے ہوا کرتی تھی۔ اتنی زیادہ قیمت کی وجہ سے یہاں بہت کم لوگ اس کو خرید پاتے تھے۔
اس زمانے میں ہمارے پڑوسی اور کالم نگار حاطب صدیقی صاحب کے گھر رابطہ باقاعدگی سے آتا تھا۔ میں نے جب ان کے پاس پہلی بار رابطہ دیکھا تو مجھے بڑا پسند آیا۔
”آپ کے ہاں یہ رسالہ کیسے آتا ہے؟“ میں نے ایک دن ان سے پوچھا۔ ”یہ تو بہت مہنگا ہے، کیا آپ خریدتے ہیں؟“
”نہیں … یہ اعزازی آتا ہے“وہ بولے۔ ”آپ بھی محنت کریں، اچھا لکھیں، تو رابطہ آپ کے پاس بھی اعزازی آئے گا۔“
میرے ذہن سے یہ بات چپک گئی۔ میں نے سوچا کہ میں اب کوئی ایسا اچھا سفرنامہ لکھوں جو رابطہ میں شائع ہو جائے اور رابطہ میرے گھر بھی اعزازی طور پر آئے۔ چنانچہ میں نے اپنا وہی چین کا سفرنامہ مختصر کر کے ”تا بہ خاکِ کاشغر“ کے نام سے لکھا اور حاطب صاحب کو دکھایا۔ وہ بولے :
”چلو بھئی رابطہ والوں کے پاس چلتے ہیں اور ان کو یہ سفرنامہ دکھاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ کی یہ تحریر وہاں شائع ہو جائے۔“
یہ 1988ء کی بات ہے۔ ہم لوگ صدر کراچی میں رابطہ کے دفتر چلے گئے۔ اس وقت رابطہ کے ایڈیٹر عبد السلام سلامی صاحب ہوتے تھے۔ کلیم چغتائی اور یعقوب صاحب بھی ادارتی ٹیم میں شامل تھے۔ میں نے ان کو اپنا سفرنامہ دکھایا۔ سلامی صاحب بولے :
”یہ بہت اچھا ہے لیکن کچھ طویل ہے۔ اسے مختصر کریں۔ جنوری میں ہمارا سالنامہ آرہا ہے ہم یہ اس میں شائع کر دیں گے۔“
میں تو یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے اسے کچھ اور مختصر کر کے دے دیا اور جنوری 1989ء کے سالنامے میں یہ سفرنامہ رنگین تصویروں کے ساتھ دھوم دھام سے شائع ہو گیا۔ اس کے ساتھ کاشغر کی تصویریں مشہور فوٹوگرافر ندیم اے خان کی تھیں۔ مجھے اس مضمون کا اچھا معاوضہ بھی دیا گیا۔ اس کے بعد رابطہ والوں نے مجھ سے کہا آپ ہمارے لئے مزید لکھیں۔ یوں میری تحریریں تسلسل کے ساتھ رابطہ میں شائع ہونا شروع ہونے لگیں۔
شروع میں تو رابطہ والے میرے مختصر سفرنامے شائع کرتے رہے، لیکن پھر ایک مستقل سلسلہ ”ایک شہر ایک انجمن“ میرے حوالے کر دیا گیا۔ اس عنوان کے تحت رابطہ میں پاکستانی شہروں کے تعارفی مضامین رنگین تصاویر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ مجھ سے پہلے اسے مختلف لوگ لکھتے رہے تھے، لیکن یہ سلسلہ مجھے دیئے جانے کے بعد بیس پاکستانی شہروں کے تعارف میں نے ہی لکھے۔ نہ صرف تعارف لکھے بلکہ ان شہروں کی فوٹوگرافی بھی وہاں جا کر میں نے خود ہی کی۔
رابطہ کی طرف سے مجھے اس کام کا معقول معاوضہ ملتا تھا۔ چنانچہ اب میرا سیاحت اور فوٹوگرافی کا شوق بھی پورا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اچھی آمدنی بھی ہو جاتی تھی۔ اس زمانے میں اخبارات اور رسالے ایک مضمون کے دو تین سو روپے سے زیادہ معاوضہ نہیں دیتے تھے، لیکن میرے باتصویر مضمون کے مجھے رابطہ والے ڈھائی تین ہزار دے دیتے تھے۔
ان تحریروں کی تیاری کے سلسلے میں میرا پاکستان کے کئی شہروں میں جانا ہوا۔ ایک دفعہ میں پنجاب کے شہروں خانیوال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ پر آرٹیکل کیلئے گیا ہوا تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر میں لاہور آیا۔ لاہور سے مجھے واپس کراچی آنا تھا۔ میں اسی دن نکلنا چاہ رہا تھا، لیکن ریل گاڑی میں سیٹ اور برتھ نہ ملی، صرف ٹکٹ ملا۔ اب یہی ممکن تھا کہ میں ٹکٹ لے کر ریل گاڑی میں چڑھ جاؤں، کہیں جگہ مل گئی تو بیٹھ جاؤں، ورنہ ایسے ہی کراچی تک کھڑے کھڑے سفر کر لوں۔
ٹکٹ لے کر ریل گاڑی کی ایک بوگی میں داخل ہوا تو اس میں بہت رش تھا۔ دروازے کے پاس باتھ روم کے سامنے دو لڑکے چادر بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ چادر پہ خاصی جگہ تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا میں بھی یہاں بیٹھ جاؤں تو خوشدلی سے بولے کیوں نہیں، بیٹھ جائیں۔ میں بھی وہیں ان کے ساتھ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ ریل گاڑی اسٹیشن سے نکلی تو ہماری گفتگو بھی شروع ہو گئی۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ ان میں سے ایک بولا۔
”کراچی“ میں نے جواب دیا۔
”آپ کیا کام کرتے ہیں؟“ وہ بولا۔
”میں لکھتا ہوں اور فوٹوگرافی کرتا ہوں“ میں بولا۔
”لکھتے ہیں؟… کہاں لکھتے ہیں؟“ ایک بولا۔
”میں ماہنامہ رابطہ میں لکھتا ہوں … رابطہ انٹرنیشنل میں“ میں نے بتایا۔
رابطہ کا نام سن کر وہ کچھ چونکے۔
”رابطہ ؟… وہ تو بڑا مہنگا رسالہ ہے“
”جی بالکل“میں بولا۔ ”بہت مہنگا ہے“
”اس میں تو بڑے بڑے لوگ لکھتے ہیں، آپ اس میں کیسے لکھ سکتے ہیں؟“ وہ حیرت سے بولا۔
وہ دونوں غالباً یہی سوچ رہے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رابطہ جیسے اعلیٰ معیار کے رسالے میں لکھنے والا یوں ریل گاڑی کے باتھ روم کے سامنے بچھی چادر پر ان کے ساتھ آلتی پالتی مارے بے تکلفی سے بیٹھا ہو۔
”رابطہ میں لکھنے والے ضروری نہیں کہ سب بڑے بڑے سائز کے ہوں“ میں ہنسا۔ ”ہمارے سائز کے لوگ بھی اس میں لکھ لیتے ہیں“
”آپ کیا لکھتے ہیں اس میں؟“ دوسرا بولا۔
”میں ایک شہر ایک انجمن کے آرٹیکل لکھتا ہوں“ میں بولا۔
”اچھا … آپ کا نام کیا ہے؟“
”عبیداللہ کیہر“ میں بولا۔
”اوہ … تو عبیداللہ کیہر آپ ہیں؟… ہم تو رابطہ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور اس میں آپ کا نام کئی بار دیکھا ہے“ وہ بولا۔ ”لیکن کیا واقعی آپ عبیداللہ کیہر ہیں؟“
اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
”جی جی … یقین کریں میں ہی عبیداللہ کیہر ہوں“ میں ہنس کر بولا۔
لیکن میں نے نوٹ کیا کہ میرے ہنسنے کے باوجود ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئی۔
”سچ کہہ رہے ہیں؟… آپ اس طرح ریل گاڑی میں ہمارے ساتھ فرش پر بیٹھے ہوئے ہیں، واقعی آپ عبیداللہ کیہر ہیں؟“
”جی قسم سے میں ہی عبید اللہ کیہر ہوں“ اب میں باقاعدہ ہنسنے لگا۔
تھوڑی دیر کیلئے خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر ان دونو ں نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر دونوں اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سمیٹنے لگے۔ میں حیران ہوا کہ وہ یوں اچانک کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
”کیا ہوا؟… کہاں جا رہے ہیں آپ؟“ میں اچنبھے سے بولا۔
”ہم کہیں اور جا کر بیٹھ رہے ہیں“ دونوں ایک ساتھ بولے۔
”کیوں؟…“میں حیران ہوا۔
”جھوٹے آدمی کے ساتھ کیا سفر کرنا“ وہ بولے۔ ”پتہ نہیں تم کون ہو اور خواہ مخواہ کہہ رہے ہو کہ میں عبیداللہ کیہر ہوں اور رابطہ میں لکھتا ہوں۔ ہم تمہارے ساتھ سفر نہیں کر سکتے، ہم یہاں سے جا کر کسی اور ڈبے میں بیٹھیں گے“
میں ہکا بکا ہو کر انہیں دیکھتا رہا اور وہ اٹھ کر کہیں اور چلے گئے۔
تبصرہ لکھیے