ہوم << گارڈنر کلب اور ڈیانا کاٹج - احمد رضوان

گارڈنر کلب اور ڈیانا کاٹج - احمد رضوان

احمد رضوان مرزا غالب عرصہ ہوا فرما گئے تھے ”ایسا بھی کوئی ہے سب اچھا کہیں جسے۔“ کوئی ایسا محبت کرنے والا انسان جس کی محبت رنگ، نسل، ذات پات سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت سے ہو، خال خال افسانوی کرداروں کی طرح خیالی سا لگتا ہے، مگر صاحبو میں ایک ایسے آدمی کو جانتا ہوں جسے اس دور میں انسان ہونا میسر آگیا ہے، نہ داد کے طلب گار نہ ستائش کے تمنائی۔ باتوں کی جگہ عمل اور صرف عمل کہ یہی وہ عطروں کا عطر ہے جو علم، تجربہ اور دانش سے کشید ہوتا ہے اور ماحول کو معطر و مطہر کر دیتا ہے معاشرے میں ایسے ہیرا صفت لوگ آپ کو ایدھی صاحب، ڈاکٹر امجد ثاقب اور دیگر بےشمار اپنے اردگرد نظر آئیں گے جنہوں نے تن تنہا رفاہ عامہ اپنے عزم صمیم سے صدقہ جاریہ کی طرح لوگوں تک پہنچانے کا قصد کیا۔ تعارف کا مقصد کسی کی قدآوری کی بجائے ایسے اجلے کردار کو سامنےلانا ہے جس کی روشن مثالی کی وجہ سے ان جیسے دوسرے درد دل اور دردمند لوگوں کی ہمت بندھے، وہ سامنے آئیں اور دنیا کو دکھائیں کہ کس طرح اک ز را سی کاوش وکوشش اس ملک میں نعروں کی بجائے ایک حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
شکیل خان فیصل آباد میں مقیم شکیل خان کاکڑ کے آباؤ اجداد کا تعلق ضلع پشین بلوچستان سے تھا. ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناتے بڑے ناز و نعم میں پرورش ہوئی، ٹیکسٹائل انجینئر بننے کے بعد 1967ء میں کولمبو پلان کی سکالرشپ 40 ملکوں میں ٹاپ کر کے حاصل کیا. مگر والد کی اچانک موت کے بعد ماں کی تنہائی کے خیال سے سکالر شپ لینے سے انکار کر دیا. تین مہینے اپنی ماں کے ساتھ بطور ترجمان ملکہ برطانیہ کی دعوت پر لندن کا وزٹ کیا، ماں کو ملکہ برطانیہ نے زراعت کی ترقی پر تبادلہ خیال کے لیے بلایاتھا. ماضی میں سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی جاگیر، باغات اور مویشی فارم ہونے کے باوجود غرور نام کی کوئی چیز پاس سے بھی نہیں گزری۔ 66ء سے 70ء تک میونسپل کارپوریشن کی سربراہی کی۔ خان صاحب ایک ایسے ہی آشفتہ سر انسان ہیں جو مثل فرہاد دودھ کی نہر پہاڑ کاٹ کر نکالنے کا خواب ہی نہیں دیکھتے بلکہ تیشہ لے کر عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں۔ 75 سال کی عمر میں ان کا حوصلہ اور جذبہ دیکھ کر جوانوں کی پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہےکہ کس طرح ایک انسان اپنے وقت کا اتنا عمدہ استعمال کرتا ہے کہ کوئی کھونٹا خالی نہیں چھوڑتا۔ کتب بینی سے عشق اور لائبریری کو روزانہ وقت دینا، ساتھ ساتھ اپنے یاروں اور پیاروں کی دیکھ بھال اور نگہداشت و پرداخت جیسے اپنی اولاد کی کی جاتی ہے، جی ہاں پودوں اور درختوں سے وہ اولادکی طرح محبت کرتے ہیں مگر ٹھہرئیے صاحب یہ تو سب لوگ کرتے ہیں، گھر میں لان نہ بھی ہو تو گملوں میں کوئی نہ کوئی پھولدار پودا لگا کر یا گھر کے باہر چھوٹا سا قطعہ گھاس اور کیاری بنا کر۔ نیا کیا ہے؟ نیا اپنے گھر اور لان کو سجا سنوار کر لوگوں کے لیے اسے بلا جھجھک اوپن کرنا ہے۔
فیصل آباد گارڈنر کلب کے انتہائی فعال رکن ہونے کے ناطے اپنا گھر تو خیر نایاب ،متنوع اقسام کے پودوں سے گل وگلزار بنا رکھا ہے.موسمی، ششماہی، سالانہ اور سدابہار مختلف انواع کے روایتی اور ہابئرڈ ملکی و غیر ملکی پھول اور پتوں والے پودے روش روش سارا سال اپنے اپنے وقت پر چھب دکھاتے ہیں۔ وہیں صدقہ جاریہ کے طور پردوستوں کوامپورٹد اقسام کے بیج تقسیم کرکے بیج بونے سے پھل پھول کے ثمر بار ہونے تک مکمل رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔گٹ والا پارک سے گذرتی ہوئی نہرکے ساتھ ساتھ اوپر کو چلتے جائیں تو کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک چوٹی پر نظر پڑتی ہے جو سپاٹ اور ہموار زمین میں ایک اونٹ کی کوہان کی طرح ابھری ہوئی محسوس ہوتی ہے، درختوں سے بھری اور گھری ہوئی یہ چوٹی نہ تو کٹی پہاڑی کی طرح خطرناک ہے نہ وحشت ناک بلکہ ایک قطعہ جنت ہے۔ چوٹی کو بل کھاتا اوپر جاتا ہوا رستہ سبزہ نورستہ سے آراستہ و پیراستہ ہے جہاں وہ گھر ہے جسے انہوں نے ڈیانا کاٹج کا نام دیا ہے، اس کی وجہ تسمیہ آگے آئے گی۔ یہ گھر اور اس کا مکین سب کے لیے چشم براہ رہتا ہے، نہ کوئی دربان نہ روک ٹوک، آئیے اور مناظر فطرت میں کھو جائیے اور قدرت کی بوقلمونیوں کے شاہد بنیے۔
سردیوں کی دوپہر کی نرم اجلی دھوپ سے لطف کشید کرتی ہوئی دور و نزدیک سے آئی ہوئی فیملیز ہوں یا بہار رنگ دیکھنے آئے ہوئے جوان دھڑکتے دل یا گرمی اور حبس سے ادھ موئے نفوس سب اس باغ میں اترتے،کیاری کیاری گھومتے اور ڈھاکہ گراس سے لے کر کینٹکی بلیو گراس پر بیٹھتے، واک کرتے خوشبو میں لپٹی ہوئی ایک خوشگوار یاد لیے واپس لوٹتے ہیں۔ دل ہی دل میں دعا دیتے کہ اگرایک انسان اپنے وسائل سے دھرتی ماں پر رنگ برنگی اوڑھنی سے لوگوں کا دل جیت سکتا ہے تو اور لوگ بھی اگر اپنا تھوڑا سا حصہ ڈالیں تو خوشی تلاشنے ہمیں اِدھر اُدھر نہ بھٹکنا پڑے۔
واکس ویگن جس سے نئی نسل شاید تصویری حد تو واقف ہو جی ہاں ”فوکسی“ ایک معروف نک نیم تھا اس حسینہ کا، بعضے اسےصابن دانی سےبھی تشبیہ دیتے تھے ،یک نہ شد دو شد کے مصداق دو دو رکھی ہوئیں ہیں کہ ایک سے سیری نہیں ہوتی ۔ایک دلچسپ قصہ سنایا انہوں نے کہ ایک دن واپس لوٹے تو ایک نئے نویلے شادی شدہ مولوی صاحب کو اپنی زوجہ ماجدہ کے ساتھ لان میں دعوت اڑاتے دیکھا تو ان کی پرائیویسی میں مخل نہ ہونے کے ڈر سے ذرا اوٹ سے ہو کر گھر کے اندر داخل ہونے لگے تو حضرت کی نظر پڑ گئی، یکدم کڑک کر للکارا ”کہاں گھسے جا رہے ہیں ۔۔۔ صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر؟“ پلٹ کے واپس آئے اور ان کے پاس بیٹھ گئے. باتوں باتوں میں اپنے صاحب مکان ہونے کا ذکر کیا تو تھوڑے شرمندہ ہوئے اور معذرت کی کہ اب آپ جیسے وضع دار لوگ کہاں جو ہم جیسے بن بلائے مہمانوں کو روکتے ٹوکتے ہیں نہ برا مانتے ہیں۔ بولے ”دیکھو صاحب میں سب انسانوں کو برابر سمجھتا ہوں، سب کی بات سنتا ہوں مگر کرتا اپنی ہوں، آپ لوگ جب آپس کے مسلکی اختلافات کو ذاتی بنا لیتے ہو تو اس سے مجھے اختلاف ہے، نماز پڑھتا ہوں مگر خدا کے گھرداخل ہوتے وقت کون تلاشی دیتا پھرے اس لیے گھر پر ہی پڑھ لیتا ہوں۔ اور میری تو اللہ تعالیٰ سے ڈائریکٹ ڈائیلنگ ہے۔ میں اپنے رب سے پیار بھی کرتا ہوں اور لڑتا بھی ہوں۔“
ان کی نظر میں پانچ بڑی برائیاں ہیں: جھوٹ، دھوکہ دہی، امانت میں خیانت، حقوق العباد کا پورا نہ کرنا اور ہمسائے کے حقوق ادا نہ کرنا. کمزور اور بیمار لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ چل کر ان کے مسائل بھی حل کرواتے ہیں. جب کارپوریشن کے صدر بنے تو اڑھائی سو روپے تنخواہ تھی. پہلے دن جب سیٹ سنبھالی تو دس لاکھ کا چیک ان نام کا آیا کہ یہ رقم تسلسل سے آپ کو ملتی رہے گی، مگر انکار کر دیا.
ایک بار گارڈنر کلب کے سب ممبرز کو فیملیز کے ساتھ چائے پر مدعو کیا تو ان کی ذات کے ان گوشوں پر بھی نظر پڑی جو اب تک باقی سب سے پوشیدہ تھے، گھر کےمکین کا صاحب ذوق ہونے کا اندازہ باہر سے دیکھنے والوں کو کچھ کچھ ہو جاتا ہے مگر اندر گئے تو گویا اک اور ہی جہاں آباد دیکھا۔ کوئی دیوار یا کونا ایسا نہ تھا جہاں لیڈی ڈیانا کی تصویر یا اس دلوں کی شہزادی سے منسلکہ یادگار موجود نہ ہو اور لیڈی ڈیانا پر لکھی گئی مختلف مصنفین کی لاتعداد کتب جو اب ڈیانا لائبریری کی زینت بنیں گی جلد۔ڈیاناق مارے حیرت کے پوچھا" یہ کیا قصہ ہے؟ ”بولے ،جس طرح ایف ایم حسین صاحب 90 سال کے ہوتے ہوئے مادھوری ڈکشٹ پر دل و جان سے عاشق تھے اور اس گج گامنی نارکی نرت اور چال ڈھال کی تصاویر بناتے تھے، اسی طرح میں بھی پیری میں لیڈی ڈیانا کےظاہری حسن کا پرستار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی باطنی خوبصورتی کا بھی قائل ہوں اور اللہ کی اس صناعی پر خالق کا رطب اللسان ہوں۔ میرے خیال میں ڈیانا سے جڑی جتنی تعداد میں اشیاء میرے پاس محفوظ ہیں شاید ہی پاکستان میں کسی کے پاس ہوں۔“ لیڈی ڈیانا کے نام پر اپنے گھر کا نام ڈیانا کاٹیج رکھا ہے. گھر کے ساتھ ایک دو منزلہ چھوٹی سی عمارت زیرتعمیر ہے. ایک منزل پر ڈیانا میوزیم اور دوسری منزل پر ڈیانا لائبریری کی تعمیرجاری ہے. کہتے ہیں ڈیانا سے ایک روحانی تعلق محسوس کرتے ہیں. جس دن ڈیانا کی شہزادہ چارلس سے شادی تھی تو لندن میں موجود تھے. ساری تقریب اپنی آنکھوں سے دیکھی.
پاکستان سے دو مہمان مدعو تھے. ایک تو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر جیسے ساری دنیا کے معزز سفراء اور ہائی کمشنرز اور دوسرے مہمان اپنے عمران خان صاحب تھے. ریٹائرمنٹ کے بعدبچوں کے پردیس اور اپنی زندگی میں مگن اور بیوی کے پرلوک سدھارنے پر ایک آپشن تو اپنے بچوں کے پاس جا کر رہنے کی تھی یا یہیں رہ کر کچھ کرنے کی تو آپشن نمبر دو کو دبا دیا اور سارے پاکستان کے لوگوں کو اپنا لیا۔ اب وہ ہیں، پھول پودے ہیں اور خوشبو جیسے پیارے لوگ جو ان کا دل لگائے رکھتے ہیں۔ سب اپنے اپنے حصے کی خوشی اور غمی ساتھ لیے اس دنیا میں آتے ہیں اب یا تو اول الذکر کو مقصد حیات بنا کے”وَلیَطَلف“سے رہنمائی لو یا ثانی الذکر کے ہاتھوں مجبور محض بن کے کڑھتے رہو، انتخاب
آپ کے اوپر ہے۔