ہوم << ایک منفرد تجربہ، ایک ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ کا - خواجہ مظہر صدیقی

ایک منفرد تجربہ، ایک ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ کا - خواجہ مظہر صدیقی

یہ چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ میں اپنی تنظیم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں شریک تھا۔ گفتگو عروج پر تھی، اہم فیصلے کیے جا رہے تھے کہ اچانک میرے فون کی وائبریشن محسوس ہوئی۔ نظر ڈالی تو ایک نیا اور اجنبی نمبر تھا۔ میں نے نظر انداز کر دیا، مگر پھر مسلسل تین بار مزید کال آئی۔ چوتھی بار مجھے لگا کہ شاید کوئی ایمرجنسی کال ہو، چنانچہ میں نے ممبران سے اجازت لے کر میٹنگ سے چند لمحوں کے لیے باہر جا کر کال بیک کی۔

دوسری طرف سے ایک پریشان حال آواز سنائی دی، وہ میرے دور کے جاننے والے تھے۔ "خواجہ صاحب! ایک مسئلہ درپیش ہے۔ فلاں اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے کئی روز سے اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر کامیابی نہیں ہو رہی۔ اسسٹنٹ کہتا ہے کہ دو ماہ بعد کا وقت مل سکتا ہے۔ کسی نے بتایا کہ آپ کے ڈاکٹر صاحب سے اچھے تعلقات ہیں، اگر آپ سفارش کر دیں تو شاید جلدی وقت مل جائے۔"

میں نے انھیں تسلی دی اور میٹنگ ختم ہونے کے فوراً بعد اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے کسی طرح اگلے دن کا وقت لے کر انہیں خوش خبری سنا دی۔ مجھے محسوس ہوا کہ اپائنٹمنٹ ملنے پر وہ بہت زیادہ خوش تھے۔

اس سے اگلے دن ان کا دوبارہ فون آیا۔ اس بار ان کی آواز میں پہلے جیسا جوش و خروش نہیں تھا۔ کہنے لگے، "خواجہ صاحب! میں اس وقت ڈاکٹر صاحب کے چیمبر کے باہر کھڑا ہوں، ان کا اسسٹنٹ معائنے کی تین ہزار روپے فیس مانگ رہا ہے۔"

میں نے حیرانی سے پوچھا، "تو اس میں کیا مشکل ہے؟ آپ معائنے کی فیس دے دیں، آخر علاج کے لیے ہی تو آئے ہیں۔"

جواب آیا، "مگر خواجہ صاحب! پھر آپ کی سفارش کا کیا فائدہ؟"

میں چند لمحے خاموش رہا، پھر مسکرا کر کہا، "بھائی، سفارش کرانے سے فیس تو معاف نہیں ہوتی، بس آپ کو جلدی وقت مل گیا، جو باقی لوگ مہینوں بعد حاصل کر پاتے۔"

مگر موصوف کو شاید یہ منطق سمجھ نہ آئی، وہ وہیں سے واپس لوٹ گئے ، بغیر معائنے کے۔۔

اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں سفارش کا مطلب شاید 'مفتے' کا مترادف بن چکا ہے۔ سفارش کا مطلب سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے، مگر فیس معاف کرانا، قواعد توڑنا یا کسی اور کا حق مارنا نہیں۔ اگر ہم اپنی سوچ بدل لیں اور سفارش کو ایک مثبت طریقے سے دیکھیں، تو شاید ہم ایک زیادہ مہذب اور خوددار معاشرہ بنا سکیں۔

یہ محض ایک فرد کی سوچ نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی عمومی عادت بن چکی ہے۔ ہم دوسروں کی مہربانی کو اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر کسی نے ہماری مدد کی ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی رعایت، کوئی 'فائدہ' ضرور ہونا چاہیے۔ ہم سسٹم کی خرابیوں پر شور تو بہت مچاتے ہیں، مگر خود اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ کبھی کسی دفتر میں بغیر قطار کے کام نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کبھی کسی کی جان پہچان استعمال کر کے حق دار کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ بہتر ہو، تو ہمیں اپنے رویے بھی بدلنے ہوں گے۔ سفارش کا فائدہ تبھی ہے جب یہ کسی کا حق نہیں چھینتی، بلکہ صرف سہولت پیدا کرتی ہے ۔

Comments

Avatar photo

خواجہ مظہر صدیقی

خواجہ مظہر صدیقی ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں۔ تعلق اولیاء کی نگری ملتان سے ہے۔ اٹھارہ سال روزنامہ نوائے وقت میں صدائے دل کے عنوان سے سماجی اور معاشرتی عنوانات پر کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔ پانچ کتب کے مصنف ہیں۔ 1993 میں جنوبی پنجاب میں کہانی گھر کی بنیاد رکھی، اب تک 320 کہانی گھر قائم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں بچوں میں کہانی کی ختم ہوتی قدیم ترین روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Click here to post a comment