غلامی بد بختی ہے، غلامی کا احساس نہ ہونا بڑی بد بختی ہے، اوراسے رب کی رحمت باورکرنا سب سے بڑی بد بختی ہے۔ یہ بدبختیاں جہاں جمع ہوجائیں، فکرِ سرسید وجود میں آتی ہے۔ اس فکر کے برصغیر کی مسلمان نسلوں پرتباہ کُن اثرات پڑے ہیں۔ سرسید احمد خان کی ہمہ جہت جہالت کا احاطہ چھوٹے موٹے تبصرے میں محال ہے۔ محترم دانشور مربی شاہنواز فاروقی نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اور بہ حُسن خوبی اسے نبھایا ہے۔سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں، ایک ایسی کتاب ہے، کہ جس میں سرسید کا بُت پاش پاش کردیا گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سرسید کا پورا بُت خانہ پاش پاش کردیا گیا ہے، اور ہتھوڑاسرسید کے سب سے بڑے بُت کے ہاتھوں میں ہی تھمادیا گیا ہے۔ یہ کتاب نسل درنسل غلامی پر گزرنے والا وہ وضاحتی لمحہ ہے، کہ جس کا منتظر اک زمانہ تھا، کہ جس کی تکرار وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ یہ ہرگز مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ اگرفکرِسرسید کی فتنہ انگیزی کا جائزہ لیا جائے، کئی بڑے تنقیدی کام وجود میں ٓجائیں۔ سر سیدکی ذُریت آج بھی بر صغیرکے مسلمانوں کا اک مقتدر حصہ ہے۔ یہ ذُریت آج بھی کمپنی کی حکومت چلارہی ہے۔ پاکستان ہندوستان کی بیوروکریسی، تعلیمی شعبہ، عسکری شعبہ، ادب اور سیاست میں آج بھی سرسید کی ایسٹ انڈیا کمپنی موجود ہے، غلامی باقی ہے۔
یہ کتاب، سرسید پرشاہنواز فاروقی صاحب کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کالم سرسید کی ہمہ جہت جہالت پرہررخ سے ضرب لگاتے ہیں۔ عام حالات کے برخلاف، یہاں سرسید کے اقتباسات کی تکرار اور اُن پر تنقید کی شدت برمحل اور ضروری محسوس ہوتی ہے۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ، یہ اقتباسات تعلیمی اداروں میں اور طلبہ وطالبات کے درمیان مسلسل گردش میں رہیں۔
چند اہم اقتباسات اس کتاب سے یہاں شامل کیے جاتے ہیں۔
سرسید کہتے ہیں:
”وہ زمانہ جس میں انگریزی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی، ایک ایسا زمانہ تھا کہ بے چاری انڈیا بیوہ ہوچکی تھی۔ اس کو ایک شوہر کی ضرورت تھی۔ اس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا۔ انگلش نیشن ہمارے مفتوحہ ملک میں آئی مگر مثل ایک دوست کے، نہ کہ بطور ایک دشمن کے“۔ (افکارِ سرسید۔ از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ238)
”خدا کی مرضی ہوئی کہ ہندوستان ایک دانش مند قوم کی حکومت میں دیا جائے جس کا طرزِ حکومت زیادہ تر قانونِ عقلی کا پابند ہو۔ بیشک اس میں بڑی حکمت خدا تعالیٰ کی تھی“۔ (افکار سرسید۔ صفحہ239)
”ہم کو جو کچھ اپنی بھلائی کی توقع ہے وہ انگریزوں سے ہے“۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ241)
”خدا کا شکر ہے کہ ہم ملکہ معظمہ کوئن وکٹوریہ قیصرِ ہند کے زیر سایہ ہیں“۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ241)
”ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطاعت اور فرماں برداری اور پوری وفاداری اور نمک حلالی، جس کے سایہ وعاطفت میں ہم امن وامان سے زندگی بسر کرتے ہیں، خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے۔ میری رائے آج کی نہیں بلکہ پچاس ساٹھ برس سے اسی رائے پر قائم ہوں“۔ (افکارِ سرسید۔ صفحہ242)
اب ظاہر ہے ان افکار ِسرسید پراس کے سواکیا کہاجاسکتا ہے، کہ جوشاہنواز فاروقی نے ”سرسید اور مشرق و مغرب کے درمیان مکالمہ“ کے عنوان تلے کہا: ”سوال یہ ہے کہ ان تحریروں میں سرسید کیسے انسان نظر آ رہے ہیں؟ ایک آزاد اور صاحبِ عزت انسان، یا ایک ایسے انسان جو انگریزوں کی غلامی کو صرف سیاسی اور عسکری سطح پر ہی نہیں … ذہنی، نفسیاتی، تہذیبی بلکہ مذہبی سطح پر بھی قبول کر چکا ہے۔ اسی لیے سرسید کو انگریزوں کی غلامی ”خدا کی مرضی“ اور ”خدا کی رحمت“ نظر آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا شخص مشرق و مغرب کے درمیان کیسے اور کیوں مکالمہ کرائے گا؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جس شخص کو مغرب پہلے ہی اپنے قدموں میں پڑا ہوا پاتا ہو اُس شخص یا اُس کی تہذیب سے مغرب کس لیے مکالمے کی زحمت کرے گا؟ مغرب اگر سرسید کے زمانے میں مشرق سے مکالمہ کرتا بھی تو اُن لوگوں سے کرتا جو اس کی مزاحمت کر رہے تھے۔ جو شخص مغرب کی غلامی کھا رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی پی رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی بچھا رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی اوڑھ رہا ہو، جو شخص مغرب کی غلامی کو خدا کی مرضی اور اس کی رحمت کہہ رہا ہو اُس سے عقلی طور پر بھی مغرب کو مکالمے کی ضرورت نہیں ہوسکتی تھی۔“
”سرسید اور تضاد“ میں شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں: ”سرسید اگر ہمارے زمانے میں ہوتے اور انتخابات میں حصہ لیتے تو ان کا انتخابی نشان تضاد ہوتا۔ کسی ایک انتخاب میں نہیں ہر انتخاب میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید تضاد کے بغیر لقمہ بھی نہیں توڑتے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سرسید تضاد کھاتے ہیں، تضاد پیتے ہیں، تضاد اوڑھتے ہیں، تضاد بچھاتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر ہم سرسید کو برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا Mr Contra diction کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ انسانی تاریخ کے ہر اہم مفکر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری زندگی کی تشریح و تعبیر ”اصول واحد“ سے کرکے دکھا دے تا کہ اس کی فکر میں تضاد نہ پیدا ہو۔ تضاد انسانی فکر کا نقص ہے، عیب ہے۔ مثلاً تمام مذہبی مفکرین پوری زندگی کو اصول توحید کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ کارل مارکس نے معاشیات کے ذریعے پوری زندگی کی تشریح و تعبیر مہیا کی۔ فرائیڈ نے جنس کو زندگی کا محوری اصول بنایا اور اس کے ذریعے زندگی کا مفہوم متعین کیا۔ سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصول واحد کے ذریعے زندگی کی تشریح و تعبیر نہیں کرپاتے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا کوئی مرکزی حوالہ ہی نہیں ہے۔ انھیں مذہب کی ”عادت“ کو ترک کرنے سے خوف آتا ہے۔ دوسری جانب وہ مغربی فکر کے مجنوں ہیں اور مغربی فکر اس مجنوں کی لیلیٰ ہے۔ بعض لوگوں کی ذہنی صلاحیت اور علم غیر معمولی ہوتا ہے اور وہ ان دونوں کی قوت سے دو متضاد اصولوں کے امتزاج کا ”تاثر“ پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ مگر سرسید کی ذہانت اور علم اتنے بڑے نہیں ہیں کہ وہ یہ ”کارنامہ“ انجام دے سکیں۔ وِٹ مین کا ایک مشہورِ زمانہ فقرہ ہے۔
I Contradict My Self Because I am large, I contian multitudes.
ترجمہ:۔ میں اپنی تردید کرتا ہوں کیوں کہ میں وسیع اور ہمہ جہت ہوں۔
وٹ مین نے اس فقرے کے ذریعے اپنے تضادات میں عظمت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر بیچارے سرسید یہ بھی نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ نہ وہ وسیع ہیں نہ وہ ہمہ جہت ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اگر سرسید دس بائی بارہ کے کمرے میں بھی کھڑے ہوں تو تضاد ان کے ساتھ ہوگا۔“
اب اس تنقید پرکیا اضافہ کیا جاسکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ یہ کتاب،”سرسیداحمد خان تاریخ کی میزان میں“ہراُس طالب علم، استاد، استانی، معلم، مولانا،شاگرد اور محقق کی نظر سے گزرنی چاہیے، کہ جس پرفکر سرسید کے تباہ کُن سائے کسی نہ کسی طور پڑے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سب پر ہی یہ اثرات پڑے ہیں۔ یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ جس جس نظر سے یہ کتاب گزرے گی اورجس جس ذہن پر دستک دے گی، فکرِ سر سید کے زہرناک اثرات زائل کردے گی،، اورغلامی کی ہولناک ترین صورت بالکل واضح ہوجائے گی۔
اس کتاب میں ستائیس اہم موضوعات منتخب کرکے شامل کیے گئے ہیں، یہ فکرِ سرسید کا خوبی سے احاطہ کرتے ہیں، برصغیر میں ”مسلمان المیہ“ کی وجوہات واضح کرتے ہیں، اور ان وجوہات میں سرسید اور اُن کی ذریت کا کردار سامنے لے آتے ہیں۔ شاہنواز فاروقی نے لکھا ہے کہ اگر سر سید محض ایک آدمی ہوتے، توکتاب لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن سر سید کی فکر کا مسلم معاشرے پر اثر ہے اور اس حقیقت کی روشنی میں ان کی فکر کی اصل کو سامنے لانا بہت ضروری تھا۔ بلاشبہ، سرسید کا مسلم معاشرہ پر اثر ایسی ”زہرناکی“ ہے، کہ جسے کتاب ”سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں“ جیسے ”تریاق“ کی ضرورت تھی۔
کتاب نام: سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں
مصنف: شاہنواز فاروقی
ناشر:ادارہ مطبوعات طلبہ لاہور
قیمت: 400 روپے
تبصرہ لکھیے