ہوم << تعمیر پاکستان اور ترقی کے خواب - طیب احمد

تعمیر پاکستان اور ترقی کے خواب - طیب احمد

چنیوٹی شیخ برادری کا شمار پاکستان کے بڑے کاروباری خاندانوں میں ہوتا ہے۔ اسی برادری سے تعلق رکھنے والے شیخ داؤد جو عمر میں تو اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں لیکن میں انھیں ہمیشہ بڑے شیخ صاحب کہتا ہوں۔ لوگ اکثر حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ آپ انھیں بڑے شیخ صاحب کیوں کہتے ہیں؟ میں مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہوں "شیخ داؤد واقعی بڑے آدمی ہیں کیونکہ وہ وسیع ویژن اور عمیق علم رکھتے ہیں۔"

بطور کنسٹرکشن پروفیشنل، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے ان کا گھر بنایا۔ چند روز قبل انھوں نے اپنے گھر پر ایک عشائیے کا اہتمام کیا اور اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا. دورانِ گفتگو ملکی حالات پر بات چھڑ گئی۔ وہاں موجود ایک دوست نے اچانک شیخ صاحب کے سامنے سوال داغ دیا ، کہ ہمارا ملک ان حالات سے کب نکلے گا اور کیسے ترقی کرے گا؟ کمرے میں خاموشی چھا گئی، شیخ صاحب نے گہری سانس لی اور یوں گویا ہوئے: دیکھیں

"تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ تعلیم صرف کتابی علم تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کو سوچنے سمجھنے اور مسائل کا حل نکالنے کے قابل بناتی ہے۔ دنیا کے کامیاب ممالک نے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے۔ انھوں نے کیوبا کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں معیاری تعلیم ، ہر گاؤں ہر قصبے اور ہر شہر تک پہنچائی گئی جس نے ا ن کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جبکہ پاکستان میں کروڑوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ، مہنگی نجی تعلیم اور معیاری تدریسی نظام کا فقدان ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو جدید یکساں اور سب کےلیے قابلِ رسائی بنانا ہوگا۔ تعلیم میں تخلیقی سوچ، سائنسی مہارت اور اخلاقی تربیت کو شامل کرنا ہوگا۔ صرف ڈگریاں بانٹنے سے معاشرہ ترقی نہیں کرتا بلکہ ایسی نسل تیار کرنے کی ضرورت ہے جو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

پھر شیخ صاحب نے ریلوے کو ترقی کا اہم ذریعہ قرار دیا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے مواصلاتی نظام کو مضبوط کیا۔ ہندوستان میں ریلوے نے نہ صرف دور دراز علاقوں کو شہروں سے جوڑا بلکہ معیشت کو بھی سہارا دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریلوے کا نظام زوال کا شکار ہے۔ کئی اسٹیشن بند ہو چکے ہیں، پٹریاں خستہ حال ہیں اور سہولیات کی کمی ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ریلوے کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا کیونکہ یہ مواصلات کا ایک سستا اور مؤثر ذریعہ ہے جو معیشت میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔

تیسرے نمبر پر شیخ داؤد صاحب نے معیشت کو ریاست کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مضبوط معیشت کے بغیر کوئی ریاست ترقی نہیں کر سکتی۔ جاپان اور جرمنی کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان ممالک نے جنگوں کے بعد اپنی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اور دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام محدود اور غیر متوازن ہے۔ ہمیں ایسا نظام بنانا ہوگا جو ہر طبقے کے لیے یکساں اور قابل قبول ہو اور عوام میں اعتماد پیدا کرے۔ انھوں نے وسائل کے دانشمندانہ استعمال، غیر ضروری قرضوں سے اجتناب، اور خود انحصاری پر زور دیا۔

آخر میں، شیخ صاحب نے انصاف کے نظام کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون سب کےلیے برابر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے، انصاف کا دوہرا معیار رائج ہے۔ عدلیہ کو آزاد اور عوام کو انصاف تک آسان رسائی فراہم کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق انصاف صرف عدالتوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہمارے رویوں ، تعلقات اور حکومتی فیصلوں میں جھلکنا چاہیے۔ انصاف کے بغیر نہ تو قوم میں یکجہتی پیدا ہو سکتی ہے، اور نہ ہی اعتماد۔

شیخ داؤد کی گفتگو نے محفل میں موجود ہر شخص کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا. ان کی باتوں میں نہ صرف حقیقت کی گہرائی تھی، بلکہ ایک امید اور وژن بھی تھا۔ جب وہ خاموش ہوئے تو وہاں موجود ایک دوست، جو تمام وقت توجہ سے سن رہے تھے نے ان سے سوال کیا: "شیخ جی، یہ سب ہو گا کیسے؟ یہ خواب حقیقت میں کب بدلیں گے؟"

شیخ داؤد مسکرائے، پھر گہرے لہجے میں بولے، یہ سب تب ہوگا جب اس ملک کو تعلیم یافتہ، ایماندار، وژن رکھنے والے اور قابل ترین لیڈر اور حکمران میسر آئیں گے۔ ایسے لیڈر جو صرف اقتدار کے خواہاں نہ ہوں بلکہ عوام کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھیں۔ جو نہ صرف علم رکھتے ہوں بلکہ عمل کی قوت بھی رکھتے ہوں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں ایسی نسل تیار کرنی ہوگی جو تعلیم اور کردار دونوں میں مثالی ہو۔ ہمیں اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہ صرف علم دینا ہو گا بلکہ اخلاقیات اور حب الوطنی بھی سکھانی ہوگی۔ صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے پاس نہ صرف علم ہو بلکہ اسے صحیح سمت میں استعمال کرنے والے رہنما بھی ہوں۔

کمرے میں موجود ہر فرد کے چہرے پر ایک نیا عزم جھلک رہا تھا۔ شیخ صاحب نے امید کا ایک دیا جلایا تھا جو شاید ہمیں اس منزل تک پہنچنے کا راستہ دکھا سکے جہاں ہمارا ملک تعلیم یافتہ، خود مختار اور انصاف پر مبنی ایک مثالی ریاست بن سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خواب دیکھنا اہم ہے، لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کےلیے ہمیں سخت محنت، درست قیادت اور مثبت سوچ کی ضرورت ہے۔