ہوم << وہ انھی کو تھامتا ہے جو اس کی طرف بڑھتے ہیں - عاطف ہاشمی

وہ انھی کو تھامتا ہے جو اس کی طرف بڑھتے ہیں - عاطف ہاشمی

زندگی کے سفر میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ راستے دھندلا جاتے ہیں، قدم ڈگمگانے لگتے ہیں، اور دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟ ایسے لمحوں میں کچھ لوگ رک جاتے ہیں، کچھ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اور کچھ ہمت کر کے آگے بڑھتے ہیں۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ جو خود اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے، وہ اسے تھام لیتا ہے، اسے سہارا دیتا ہے اور اس کے لیے دروازے کھول دیتا ہے۔ سورہ یونس اور سورہ ہود ہمیں یہی پیغام دیتی ہیں کہ اللہ کی رحمت ان لوگوں کے لیے ہمیشہ قریب ہوتی ہے جو خود اپنی اصلاح کے لیے آگے بڑھتے ہیں، حق کی تلاش میں پہلا قدم اٹھاتے ہیں اور آزمائشوں میں ثابت قدم رہتے ہیں۔

دروازہ ابھی تک کھلا ہے، لوٹ آئیں:
سورہ یونس ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ انسان جتنا بھی بھٹک جائے، جیسے بھی گناہوں میں گھر جائے، اگر وہ پلٹ آئے تو اللہ کی رحمت اسے تھام لیتی ہے۔ قرآن بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے میں تاخیر نہ کریں، کیونکہ جب فیصلے کی گھڑی آن پہنچے تو پھر واپسی کا دروازہ بند ہو جاتا ہوتا ہے۔

ہدایت کی روشنی اور انسان کی ہچکچاہٹ:
سورہ یونس کے آغاز میں انسان کی اس حیرانی اور انکار کا ذکر ہے جو وہ وحی اور پیغمبر کی دعوت کے سامنے ظاہر کرتا ہے: "أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا" (یونس: 2) "کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ہم نے انہیں میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کی کہ وہ انھیں ڈرائے اور ایمان والوں کو خوشخبری دے؟"
یہی انسانی فطرت ہے کہ جب بھی اللہ کی طرف سے ہدایت آتی ہے تو کچھ لوگ اس پر فوراً ایمان لے آتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ سوالات، انکار، اور تردد کا شکار رہتے ہیں۔

قوموں کے انجام سے سیکھو:
آیت نمبر 13 میں ارشاد ہے "وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا" (اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کو ان کے ظلم کے باعث ہلاک کر دیا)
یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وہ قومیں جو اپنی اصلاح کا موقع گنوا دیتی ہیں، آخرکار زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی ہمیں غلطی کا احساس ہو، ہم فوراً پلٹ آئیں۔ سورت میں توبہ سے متعلق درج ذیل دو مختلف واقعات بیان کیے گئے ہیں، ایک توبہ کی قبولیت کا اور دوسرا عدم قبولیت کا.

فرعون نے توبہ کرنے میں بہت دیر کر دی:
پہلا واقعہ فرعون کا ہے جو اپنی طاقت اور شان و شوکت کے نشے میں مست رہا اور پوری زندگی غرور اور سرکشی کے سائے تلے گزاری، آخر کار جب وہ پکڑ میں آیا تو اس نے توبہ کا اقرار کرنے کی کوشش کی، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی، اسے متعدد مواقع دیے گئے تھے، بارہا یاد دہانیاں کروائی گئی تھیں مگر اس کی آنکھوں پر طاقت اور غرور کا دبیز پردہ پڑا رہا، چنانچہ آیت 90 تا 92 میں ہے:
وَجَاوَزۡنَا بِبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتۡبـَعَهُمۡ فِرۡعَوۡنُ وَجُنُوۡدُهٗ بَغۡيًا وَّعَدۡوًا​ ؕ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدۡرَكَهُ الۡغَرَقُ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِىۡۤ اٰمَنَتۡ بِهٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِيۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ‏ ٩٠ آٰلۡــٰٔنَ وَقَدۡ عَصَيۡتَ قَبۡلُ وَكُنۡتَ مِنَ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ٩١ فَالۡيَوۡمَ نُـنَجِّيۡكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوۡنَ لِمَنۡ خَلۡفَكَ اٰيَةً ؕ وَاِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ النَّاسِ عَنۡ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوۡنَ "اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اب یوں کہتا ہے؟ حالانکہ تو اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فساد مچانے والوں میں شامل رہا۔ پس آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کے لیے عبرت ہو، اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔"

قوم یونس نے بروقت توبہ کر لی:
حضرت یونسؑ نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کی نافرمانی نے ان کے دل کو بوجھلا دیا تھا، مگر جب آخری گھڑی آئی تو قوم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اللہ کے سامنے جھک کر معافی مانگ لی۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اور عذاب سے انہیں بچا لیا۔
"فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ" (یونس: 98) "پس کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لاتی اور اس کا ایمان اسے فائدہ دیتا، سوائے یونس کی قوم کے؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے رسوا کن عذاب ٹال دیا۔"
یہاں اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر بندہ وقت پر پلٹ آئے، تو اللہ کا دروازہ کھلا ملتا ہے۔ حضرت یونسؑ علیہ السلام کی قوم نے جب اپنی غلطی کا احساس کیا، دل سے توبہ کی، تو انہیں معاف کر دیا گیا۔

لوٹ آئیں؛ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے:
یہی سورہ یونس کا خلاصہ ہے: اللہ کا دروازہ کھلا ہے، لیکن ہمیشہ نہیں۔ فرعون جیسے لوگوں نے وقت ضائع کیا اور خسارے میں رہے، جبکہ یونسؑ علیہ السلام کی قوم نے مہلت ملنے پر رجوع کیا اور نجات پا گئی۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اگر زندگی ہمیں ایک اور موقع دے رہی ہے، اور دل میں کبھی یہ خیال آتا ہے کہ شاید میں غلطی پر ہوں، تو یہ وہ لمحہ ہے جب دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔

سورہ ہود: واپسی کر لی ہے تو اب ڈٹ جائیے:
سورہ یونس اگر ہمیں توبہ اور واپسی کا درس دیتی ہے، تو سورہ ہود ہمیں سکھاتی ہے کہ جب کوئی ایک بار راہ حق پر آ جائے تو استقامت ضروری ہے، جو پلٹ آئے، وہ مضبوطی سے جمے بھی، کیونکہ آزمائشیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ واپسی کے بعد بڑھ جاتی ہیں۔
اس سورت کا نزول ایک ایسے دور میں ہوا جب ایک طرف کفار آپ کو ستانے کے درپے تھے تو دوسری طرف آپ کے دو قریبی سہارے _حضرت خدیجہ اور حضرت ابو طالب_ بھی داغ مفارقت دے گئے تھے، زندگی کے اس مشکل ترین سال میں بھی آپ کو یہی حکم ملا کہ اپنی قوم کو راہِ حق کی طرف بلاتے رہیں اور پوری استقامت کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھیں، چنانچہ آیت 112 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ سے فرمایا:
"فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا ۚ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ" (ہود: 112) "پس آپ ثابت قدم رہیے، جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے، اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں، اور حد سے نہ بڑھیں، بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔"
اس کے ساتھ ہی تسلی کے لیے انبیاء کے درج ذیل واقعات ذکر کیے گئے.

قومِ نوحؑ: طویل صبر اور مستقل مزاجی کا نمونہ:
سورہ ہود میں حضرت نوحؑ کی قوم کا ذکر تفصیل سے آتا ہے۔ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک دعوت دی، مگر وہ قوم سے اپنی سرکشی پر اڑی رہی۔ حضرت نوحؑ کی استقامت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے مایوسی کے باوجود انہوں نے تبلیغ جاری رکھی، یہاں تک کہ جب اللہ کا فیصلہ آگیا، تو اللہ نے انہیں حکم دیا: "وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا" (ہود: 37) "اور ہماری نگرانی اور وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔"
یہ کشتی صرف لکڑی اور کیلوں سے نہیں بنی تھی، بلکہ نوحؑ کی استقامت، صبر، اور اللہ پر مکمل بھروسے سے تیار ہوئی تھی۔ یہاں یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جو حق کی راہ پر ثابت قدم رہتا ہے، اللہ خود اس کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے مشکل حالات میں کشتی عطا کرتا ہے جو اسے نجات دیتی ہے۔

قومِ ہودؑ: طاقت میں اضافے کا وعدہ:
حضرت ہودؑ کی قوم عاد، جو اپنی جسمانی طاقت اور مضبوطی پر نازاں تھی، اس سے کہا گیا کہ اگر تم ایمان لے آؤ، تو اللہ تمہاری طاقت میں مزید اضافہ کر دے گا:
"وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ" (ہود: 52) "اے میری قوم! اپنے رب سے بخشش طلب کرو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا، اور تم مجرم بن کر روگردانی نہ کرو۔"
یہ وعدہ ہمیں سکھاتا ہے کہ توبہ کے بعد استقامت اختیار کرنے والے کمزور نہیں ہوتے بلکہ اللہ ان کی قوت میں اضافہ کر دیتا ہے، وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔

قومِ صالحؑ: آزمائش پر ثابت قدمی کی ضرورت:
حضرت صالحؑ کی قوم نے پہلے تو ان کی بات ماننے کی کوشش کی، مگر پھر آزمائش آتے ہی اپنے عہد سے پھر گئے۔ انہیں ایک اونٹنی کے ذریعے آزمایا گیا تھا، مگر وہ اپنے کیے پر ثابت قدم نہ رہ سکے اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ناکام ہو گئے:
"فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ" (ہود: 77) "تو انہوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی۔"

سورہ ہود ہمیں بار بار یہ سبق دیتی ہے کہ توبہ کے بعد استقامت کا راستہ ہی اصل کامیابی کا راستہ ہے، کیونکہ آزمائشیں آتی رہیں گی، حالات ڈگمگائیں گے، مگر جو اپنے قدم مضبوطی سے جما لے گا، وہی بامراد ہو گا۔ یہی پیغام ہمارے لیے بھی ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، کیونکہ وہ انھیں کو تھامتا ہے جو اس کی طرف بڑھتے ہیں۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment