ہوم << "خاتون اول" - ڈاکٹر بشری تسنیم

"خاتون اول" - ڈاکٹر بشری تسنیم

انسان کی فطرت میں مسابقت کا جذبہ رکھا گیا ہے،تاکہ وہ اپنی منزل کی جستجو میں لگا رہے.معاشرے میں ہر دو صنف اس دوڑ میں شامل ہیں کہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں اسے نمایاں مقام مل سکے. "سب سے پہلے میں" کے پیش نظر ہر فرد اپنی استعداد سے بڑھ کر دوسرے سے بہتر پوزیشن پہ آنا چاہتا ہے.خاندان برادری کے "بڑے"کہلانا ،محلے، کالونی کا سرکردہ بننا، یہ خواہش ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے تک جا پہنچتی ہے.پہلے نمبر پہ آنا اور اس پہ قائم رہنا ہر کسی کی آرزو ہوتی ہے.

خواتین میں بھی یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے، لیکن اس کا دائرہ حسن و جمال اور زیور کپڑے سے شروع ہوتا ہے، اور اپنے شوہر کے" دائرہ اختیار "کے احساس تفاخر پہ جا پہنچتا ہے.ہر عورت اپنے شوہر کے حوالے سے اپنی سوسائٹی میں معتبر گردانی جاتی ہے. شوہر کے مقام و مرتبہ میں بیوی کچھ زیادہ ہی حصہ پاتی ہے. فی زمانہ ملک کا سربراہ تو" مرد اول "نہیں کہلاتا مگر بیوی "خاتون اول " ضرور بن جاتی ہے، اگر چہ وہ کسی بھی شمار قطار میں آنے کے قابل نہ ہو.

اسلامی معاشرے میں دنیاوی جاہ و حشمت اور تخت و تاج کی کوئی اہمیت نہیں ہے. تقوی ہی اکرام و تعظیم کا معیار ہے. یہاں تو " سیدالقوم خادمهم" کا شعار سکھایا جاتا ہے. اور مسابقت میں پہلے نمبر پہ آنے کا وہی پیمانہ اور معیار رہے گا جو خالق کائنات نے مقرر کر دیا ہے. اللہ رب العزت نے جس کی مدح سرائی کی، وہی مومنوں کے لیے قابل تعریف ہے.امت مسلمہ نے اگر مروجہ القاب سے کسی شخصیت کو یاد کرنا ہی ہے تو اس کی ایک ہی شرط رہے گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات سے نہ ٹکراتا ہو. مسلمان معاشرے میں اپنے کردار کی سند ہی پیش کی جاتی ہے. اور یہی اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے کہ "کلءامری بما کسب رهین " اور الله تعالیٰ کے ضابطے بدلا نہیں کرتے.

خاتونِ اول بننے کا اعزاز اسی کو حاصل ہو سکتا جسے اللہ تعالی خود یہ اعزاز عطا فرمائے. اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان لمحات کا تصور کریں جب آپ نے سیدہ خدیجہ کو اپنی شریک حیات بنانے کا فیصلہ کیا تو اللہ رب العالمین کی تائید شامل حال تھی. اللہ تعالی کو ہی اس بات کا علم تھا کہ جو بھاری ذمہ داری اپنے نبی پہ ڈالنی ہے، اس میں کیسی تسلی و تشفی درکار ہوگی، اور اس کام میں کس عظیم حوصلے اور وسیع القلبی سے مال خرچ کرنے کی ضرورت ہوگی. اور شریک زندگی کو حسن سیرت کا مان بڑھا نے کے لیے کون بہترین الفاظ ادا کر سکتی ہے. یقیناً لفظوں کی تاثیر سے دل فتح کیے جا سکتے ہیں. خدیجہ رضی اللہ تعالی عام عورت نہیں تھیں، وہ رب کائنات کی منتخب کردہ نبی کی ساتھی تھیں، ان کی زندگی کا مقصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کی بنیادیں مضبوط کرنا تھا،اور یہ کام انھوں نے بدرجۂ اتم پورا کرکے دکھایا.

وہ خاتون اول ہیں اس لیے کہ اللہ رب العلمین کی طرف سے مبعوث کردہ رحمۃ اللعالمین کی تصدیق اس وقت کی، جب وہ خود فکرو تردد اور تشویش کی جسمانی اور ذہنی کیفیت میں مبتلا تھے. "مجھے اوڑھا دو ،مجھے اوڑھا دو" کہتے ہوئے بے قراری کے جو ناقابلِ بیان احساسات و جزبات تھے، اس وقت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے شوہر کی حسن سیرت پہ محبت اور حوصلے کی ردا بھی اوڑھا دی. اور مزید تصدیق کے لیے اپنے معاشرے کے بہترین آدمی کے پاس لے کر گئیں. حضورﷺ ابھی اپنی ذمہ داری کے منصب کو سمجھنے کی کیفیت میں تھے، اور اللہ کی بندی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کی زندگی کی ساری سچائیوں کی گواہ تھیں، اسی لیے اللہ کی نظر میں ان کے شوہر کا جو اعلیٰ مقام تھا، اس کی نشان دہی کر رہی تھیں ، اور گواہی دے رہی تھیں. یہ گواہی ثابت کر رہی تھی کہ وہی خاتونِ اول تھیں اور ہمیشہ رہیں گی. سب سے پہلے ایمان لانے اور نبوت کی تصدیق کرنے کاجن کو اعزاز ملا.

یہی وہ خاتون تھیں جو اللہ سبحانہ وتعالی کے محبوب بندے کے بچوں کی ماں بنی. اپنے شوہر کے گھر کی بلا شرکت غیرے مالک رہیں. ان کی لخت جگر جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی اور کرہ ارضی کی واحد نانی ہیں جن کے نواسے جنت کے نوجوانوں کے سردار منتخب کیے گئے. یہی وہ خوش قسمت پہلی خاتون ہے جس کو اللہ رب العزت نے مکرم فرشتے کے ذریعے سلام کا تحفہ بھیجا اور جنت میں سفید موتی کے خوب صورت محل کی خوشخبری سنائی.بے شک اللہ تعالیٰ نے اس جذبے ، خلوص کی قدردانی کی جس کے تحت اللہ کی بندی نے داعی اعظم کے گھر کو امن، سکون اور محبت کا گہوارہ بنائے رکھا. یقینا اللہ تعالی محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.

اگر خاتون اول ہونا شوہر کے صاحب اختیار و اقتدار یا کسی قوم کا امام ہونے سے مشروط بھی ہو، تو امام الانبیاء سے بڑھ کر کس کا مقام ہو سکتا ہے؟ ایسے امام کی سب سے پہلی شریک زندگی ہونا اللہ رب العزت کی طرف سے خاص اکرام ہے. عمر میں اپنے شوہر سے پندرہ سال بڑی ہونے کے باوجود اللہ تعالہ کے چنیدہ پیارے بندے کے دل کی ملکہ رہیں. ایسی کہ وفات کے بعد بھی کم عمر اور کنواری بیوی ہمیشہ ان پہ رشک کرتی رہیں . سیدنا محمد صلی اللہ عليہ وسلم کا دل ان کی محبت سے ہمیشہ لبریز رہا، اور اس محبت کا تذکرہ کرنا حضورﷺ کو زندگی بھر محبوب رہا . اور کیوں نہ ہوتا، اللہ رب العزت کے ہاں وہ عالی شان مقام پا چکی تھیں، اپنا مال ومنال نبی کی عظمت پہ قربان کر چکی تھیں، وہ دم ساز و رفیق تھیں اس وقت جب کوئی پرسان حال نہ تھا. شعب ابی طالب کی گھاٹی کی صعوبتیں ہوں، یا گلیوں بازاروں میں آوازیں کسنے اور اذیتوں کے نت نئے منصوبے بنانے والوں کا سامنا کرنے کا مرحلہ ، یہی وہ غمخوار تھیں جن کی رفاقت میں اللہ سبحانہ وتعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم راحت و سکون پاتے تھے.

پہلی ام ا لمؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روحانی اولاد اپنی ماں کے خوبصورت سفید محل میں ملاقات کی کیا تیاری کر رہی ہے؟ جہاں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما ہوں گے، اور خواتین جنت کی سردار بھی آتی ہوں گی، اپنے عظیم بیٹوں کے ساتھ جو نوجوانوں کے سردار ہیں. کیا ہی اچھی رفاقت ہوگی اور کیا ہی اچھا مقام. سبحان اللہ، سبحان اللہ. اللهم اجعلنا منهم آمین