مسلسل حادثات کی وجہ سے قوم کے اندر ایک عجیب بےحسی پیدا ہو چکی ہے، کوئی خبر بڑی نہیں لگتی، کوئی حادثہ اثرانداز نہیں ہوتا جب تک کہ خدانخواستہ اپنے ساتھ پیش نہ آ جائے۔ کسی قوم میں اتنی بےحسی نہیں ہونی چاہیے، اگر احساس ہی ختم ہو جائے تو انسان اور جانور میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
پنجاب کے مختلف شہروں بالخصوص لاہور میں پچھلے دنوں کئی گھروں کے چراغ بجھا دیے گئے، کئی ماؤں کی گود اجڑ گئی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عوام سے لے کر حکمرانوں تک سب نے اس حادثہ کو ایسے جذب کر لیا جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو. کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ کتنے گھرانے معصوم بچوں سے محروم ہو گئے ہیں، ہمارے بچے، ہماری قوم کا مستقبل کس قدر خطرے میں ہے؟ اگر بچے اپنے ہی ملک میں محفوظ نہیں تو پھر انھیں جائے پناہ کہاں ملے گی۔
ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ان معصوم کلیوں کا یہ حال کر رہے ہیں، اب تک کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ ڈبوں میں لپٹے اسمگل کیے جانے والے بچوں کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، وہ لرزا دینے والی ہیں، اگر ایک چیف جسٹس کے بیٹے کے لیے پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ سکتی ہے تو ان معصوم بچوں کی حفاظت اور ان کے مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھایا جا سکتا؟ کیا یہ ملک صرف وی آئی پیز کےلیے . ان مجرموں کے خلاف باقاعدہ آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا. اولاد تو سب کی سانجھی ہوتی ہے، بچے کسی جنرل کے ہوں، جج کے ہوں، کسی حکمرانوں کے یا عوام کے، ہر بچہ ایک جیسا قیمتی ہے. اولاد کا درد ہر ماں کے دل میں ایک جیسا ہوتا ہے ۔
قوم کے مستقبل کو اس طرح نقصان پہنچانے والوں اور ماؤں کی گود اجاڑنے والے ان درندوں کی اس درندگی کو روکنا بہت ضروری ہے. انھیں محفوظ ماحول اور مضبوط مستقبل دینے کی ذمہ داری حکومت کی ہے مگر ساتھ ہی والدین کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بچوں کو کہیں بھی اکیلا نہ چھوڑا جائے کہ احتیاط لازم ہے اب۔ اللہ ہر ماں کے لخت جگر کی حفاظت فرمائے. آمین
تبصرہ لکھیے