سکول سے نکل جانے کے بعد بھی خواب میں سکول کے امتحانات دیکھنا۔ اکثر بچے بھاگ رہے ہوتے ہیں ،تو اکثر لیٹ ہوتے ہیں اور اکثر کو آتا ہی نہیں ہے کچھ، اکثر یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ امتحان ہے کس مضمون کا، ایسے لگتا ہے کہ ایک کوشش اور خوف کی ملی جلی کیفیات ہیں۔
ہر بچے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں کہ وہ زندگی کے کس موڑ میں کہاں پھنس کر رہ گیا ہے ۔ کہاں سے نکلنے میں اس کو مدد کی ضرورت ہے۔ امتحان ہر ایک کے لیے مختلف حیثیت رکھتا ہے جیسے کسی کے لیے کامیابی تو کسی کے لیے اس کی ذات کی قبولیت، یعنی کامیاب ہو گے تو آگے بڑھو گے، یا پھر اگر پاس ہوئے تو ایک اچھے انسان گردانے جاؤ گے۔
بھلے وہ انسان اب ایک کامیاب شخص کے طور پر اپنی زندگی گزار رہا ہو ،لیکن ذہن کی دیواروں پر وہ نقوش جو معاشرے نے بچپن میں اس کے کچے دماغ پر چھوڑے تھے، وہ بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ مزید راسخ ہوتے جاتے ہیں۔ وہ لاشعوری طور پر بھی اپنے آپ کو انھی پر پرکھتا ہے۔
ہیلنگ یا تھیراپی کے بعد آپ کے خوابوں میں بھی وہ والی چیزیں ایک دم سے نہیں آنے لگ جاتی ہیں، جو ہم نئی سیکھتے ہیں، یا جس کو ہم تھیراپی سے تبدیل کر کے ایک نئے سفر پر گامزن ہوتے ہیں۔ اس میں وقت لگتا ہے، لیکن یقینا جس دن آپ ایک پرسکون خواب دیکھ کر اٹھتے ہیں، آپ کو دنیا بہت بدلی بدلی سی لگنے لگتی ہے۔آپ کا دل کرتا ہے کہ اچھل کر اور سب کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر بتائیں کہ الحمدللہ اللہ نے یہ سکون عطا کیا ہے، لیکن کوشش شرط ہے۔
ایسا ہی میرے ساتھ ہوا، میرے لاشعور نے یہ سفر طے کیا الحمدللہ. حالانکہ میں ہمیشہ ایک لائق سٹوڈنٹ رہی، کبھی فیل نہیں ہوئی، کبھی پیچھے نہیں رہی، کبھی بھی امیدوں سے کم نمبر نہیں آئے، کبھی نمبر میری زندگی کے کسی موڑ پر میرے خوابوں کے ٹوٹنے کا باعث نہیں بنے، پھر بھی امتحان گاہ کے خواب مجھے اکثر آتے رہے. اس کا مطلب ہے کہ امتحان میرے لیے اس دنیا کی کامیابی سے ہٹ کر ایک اچھا بچہ بننے کی حیثیت رکھتے رہے ہیں۔
پہلے خوابوں میں عجلت تھی کہ وقت پر پہنچ جاؤں، پرچے کا خوف ہوتا تھا، اساتذہ کیا کہیں گے، کبھی خواب میں چیٹنگ کا بھی دل کرتا تھا، کہ جیسے تیسے کر کے بس پاس ہو جاؤ رحمہ، پھر دوسرے کلاس فیلوز ہمیشہ اچھے سے سکون کی حالت میں دکھائی دیتے تھے۔ یعنی وہ لوگوں کے خوف سے پے پرواہ کیسے ہیں؟
کچھ دن پہلے کے خواب میں دیکھا کہ میری والدہ موجود ہیں، اللہ ان کی مغفرت کریں، وہ اپنی ایک دوست کے آ جانے پر مجھے کہتی ہیں رحمہ چائے بنا دو ، اور میں سوچ رہی ہوں میرا تو امتحان ہے، مجھے جانا ہے، لیکن میں اس خوف سے آزاد تھی کہ وقت پر پہنچوں گی کہ نہیں. میں ان کو کہتی ہوں امی آپ جانتی ہیں نا میرا پیپر ہے ؟ کہنے لگیں ہاں بس چائے بنا کر رکھتی جاؤ، اور میں چائے کے ساتھ ساتھ شامی کباب بھی ان کے سامنے رکھتی ہوں۔ میں نے اپنے اردگرد باقی گھر کے افراد بھی دیکھے، لیکن جیسے یہ میری ڈیوٹی تھی، کیونکہ میری امی کو میرے ہاتھ کی چائے پسند تھی، انہوں نے مجھ سے ہی فرمائش کی۔ خیر خدمت کر کے نکلی تو راستے میں سوچتی ہوں پیپر کون سا ہے، اسلامیات یا مطالعہ پاکستان؟ لیکن خود ہی خود کو کہہ رہی ہوں جو بھی ہوا دیکھا جائے گا۔ یعنی اب اس خوف سے بھی آزاد ہوں کہ نجانے کون سا مضمون سامنے ہو۔ امتحان گاہ میں دیر سے پہنچی ہوں، لیکن استاد سے بڑے آرام سے کہا کہ دیجیے پرچہ اور دیکھتی ہوں تو مطالعہ پاکستان کا پیپر ہے۔ سوالنامہ دیکھا تو صرف ایک سوال آتا تھا۔ اور خود ہی خود ہو تھیراپی والے انداز میں کہتی ہوں، ایک سوال کا ہی جواب دے دو، زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا سپلی آ جائے گی؟ تو کوئی بات نہیں دوبارہ پیپر دے لینا۔ یعنی پاس ہونے سے زیادہ اہم مجھے اب یہ لگا کہ پاس فیل ہونا زندگی کا حصہ ہے، ورنہ ہمیشہ ایک تلوار سی تھی کہ جیسے غلطی ہو گئی تو انسان کے درجے سے نیچے گر جاؤں گی۔
دیکھتی ہوں تو میں ہیڈنگ ڈالنے کے لیے کٹی نب والا مارکر بھی نہیں ساتھ لائی تھی، اس پر بھی خود کو کہا کوئی نہیں رحمہ، پین سے ہی ہیڈنگ کے نیچے لائن لگا لینا، یعنی جو صلاحیتیں موجود ہیں اس سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے، پرفیکشنزم سے بھی آزاد ہوں الحمدللہ۔ ایک سوال حل کیا اور مزے سے اٹھ کر استاد کو پرچہ تھماتی ہوں وہ دیکھ کر کہنے لگیں کہ پورا نہیں کیا اور میں انہیں یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل آئی کہ اس دفعہ اتنا ہی آتا تھا سپلی آئے گی، تو دوبارہ سے تیاری کر کے مکمل دے دوں گی۔
خود کو انسان ہونے کا مارجن دیام، پرفیکٹ ہونے سے آزاد رہی، ہر کام وقت سے پہلے کر لینے کی عجلت سے نکلی ، لوگوں کے سامنے کامیاب ہو جانے کے مقصد سے نکل آئی. سپلی آ گئی تو ناک نہیں کٹ جائے گی ، خود کو مزید تیاری اور بہتری کی گنجائش دی. مانا کہ اس بار اتنی ہی تیاری تھی، اپنی تیاری نہ ہونے اور دیر سے پہنچنے کا الزام حالات اور کاموں کو نہیں دیا۔الحمدللہ ثم الحمدللہ، یہ محض ایک خواب نہیں ہے، یہ وہ سفر ہے جو میرے لاشعور نے بھی میرے ساتھ طے کیا ہے۔
ل
یکن اس ایک خواب کو دیکھنے کے پیچھے میں نے بہت محنت کی ہے اپنے اوپر ۔ میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی یہ محنت کر کے اپنے اپنے سکون کو حاصل کر سکتا ہے. ایک دن میری ایک کلائنٹ مجھے کہنے لگیں، رحمہ! میں نے سکون کی کیفیت محسوس کی ہے تو مجھے واپس بے سکونی والا وقت اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ان کی وہ بات سن کر بے اختیار وہ آیت یاد آئی
•~ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون~•
"اور نہ انہیں کوئی خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے"
یقینا سکون اتنی بڑی نعمت ہے کہ وہ مؤمنین کے لیے قیامت کے روز ایک انعام کے طور پر بار بار بتایا گیا ہے۔
تبصرہ لکھیے