کل شام حضرت مولانا محمد اسماعیل نے فہمِ قرآن کلاس میں ”خواتین کے حقوق “ پر ایک جامع لیکچر دیا۔ انہوں نے احادیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں ایک خوبصورت نکتہ بیان کیا: ”میاں بیوی کا آپس میں محبت بھری باتیں کرنا بھی صدقہ اور باعثِ ثواب ہے۔“
آج اسی نکتے پر ہم میاں بیوی کے درمیان گفتگو ہوئی کہ آخر میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کیوں ہوتے ہیں؟ اور یہ ناچاقیاں کیسے زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں؟
ازراہِ مذاق ہم نے کہا: ” چلو، کچھ دن ہم بھی یہ ’مزہ‘ چکھ لیتے ہیں اور ایک ہفتہ بات نہیں کریں گے!“
وہ بولیں: ”یہ تو بہت زیادہ ہے!“
ہم نے پوچھا: ”دو دن کافی ہوں گے؟“
جواب آیا: ”نہیں، یہ بھی لمبا عرصہ ہوگا!“
ہم نے کہا: ”بس ایک ہی دن؟“
وہ بولیں: ”غلے شہ بیا دا خبری مہ کوا!“ (چپ رہو، آئندہ ایسی بات مت کرنا!)
یہ لوگ آخر کرتے کیسے ہیں؟
بیویوں پر ہاتھ اٹھانا، انہیں ستانا، تڑپانا، ذلیل کرنا، ان کی زندگی اجیرن بنانا۔۔۔ یہ کون سی مردانگی اور غیرت ہے؟
میاں بیوی کا رشتہ تو انس و محبت سے گوندھا گیا ہے!
یہ تعلق محبت، خیرخواہی، برداشت، عفو و درگزر اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو!
خواتین تو اس کائنات کا حسن، گھروں کی رونق، دلوں کا سکون، چہروں کی مسکراہٹ اور معاشرے کی برکت ہیں۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
رحمت اللعالمین ﷺ نے انہیں ”آبگینے“ قرار دیا۔ ایک سفر کے دوران، جب ایک غلام نے اونٹوں کو تیز دوڑایا تو نبی اکرم ﷺ نے خواتین کا خیال رکھنے کے لیے فرمایا: رُوَیدًا یَا اَنجَشَۃُ لَا تُکسِرِ القَوَارِیرَ ”آہستہ! اے انجشہ! آبگینوں کو توڑ نہ دینا۔“ (صحیح مسلم)
اسی پس منظر میں ایک خوبصورت نظم:
ذرا دھیرے سے تم چلنا
کہ یہ تو آبگینے ہیں!
یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتی ہیں
کبھی سورج کی ہو حدّت تو یہ سایہ بناتی ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتی ہیں
اِنہی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں!
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت ہیں
یہی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں
یہی فرحت بھی، راحت بھی
اِنہی سے رونقِ محفل
اِنہی سے حرمتِ محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی، یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر نکلو جو
کبھی پیروں کی بیڑی بھی!
بنیں پسلی سے ہیں یہ
اس لیے تھوڑی سی ٹیڑھی بھی!
مگر تم توڑ مت دینا
انہیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں!
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دکھ اُٹھاتی ہیں؟
تمہاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں؟
تمہاری راہ کے کانٹے
یہ چُن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آسان بناتی ہیں
سنور جائیں اگر
اک نسل کا ایماں بناتی ہیں!
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری
یہی سفیان بناتی ہیں!
تبصرہ لکھیے