ہوم << کوئی دوسرا ۔ ایوب اسماعیل

کوئی دوسرا ۔ ایوب اسماعیل

" اور سناوُ ، کیا حال ہیں ؟ " بلال نے اچانک دکان میں داخل ہوتے ہوئے کہا ،

" ارے آج تم کہاں رستہ بھول گئے ؟ " میں جو پتہ نہیں کون سی سوچوں میں گم تھا ۔۔۔۔۔۔ اچانک اسے سامنے پا کر حیران رہ گیا ،

" بس یار کیا بتاوُں ۔۔۔۔۔ بچے کی طبیعت خراب تھی ۔۔۔۔۔ اس کو دوائی دلانی تھی ۔۔۔۔ گھر کے دو تین کام رکے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ اس لیے آج کام سے چھٹی کرلی ۔۔۔۔۔ ابھی فارغ ہوا تو سوچا تم سے بھی ملتا جاوُں "

" اچھا کیا جو آگئے ۔۔۔۔۔ چلو کچھ گپ شپ ہی ہوجائے گی اس بہانے ۔۔۔۔۔ اور کام کاج کیسا چل رہا ہے ؟ "

" تمہیں تو پتہ ہی ہے مارکیٹ کا ۔۔۔۔۔ آج کل مندی ہی ہے "

" ہاں یہ تو ہے " میں نے بھی اثبات میں سر ہلایا ۔

" یار یہ کورونا جیسی وبا دوبارہ نہیں آئی ؟ " اچانک اس نے سوال داغا ،

" او بھائی خیر کی بات کرو ۔۔۔۔ خدا خدا کرکے تو اس لاک ڈاوُن سے نکلے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر تمہیں آج کیسے وبا یاد آگئی ؟ "

" بس ایسے ہی ، پتہ نہیں کتنے لوگ خاموشی سے مرگئے تھے " اس نے ہواوُں میں گھورتے ہوئے کہا ،

" ہاں بھئی جنازے بھی ویران تعزیوں کی طرح ہوگئے تھے "

" یار یہ اسرائیل اور فلسطین میں بھی جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ یوکرین اور روس بھی کب سے لڑ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ انڈیا اور پاکستان کیوں پچاس سال سے صرف زبانی فائرنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔ ان میں دوبارہ جنگ کیوں نہیں ہوتی ؟ " اس نے اچانک ہی گفتگو کا رخ موڑ دیا ۔

" تمہیں یہ جنگ میں دلچسپی کب سے ہوگئی ۔۔۔۔۔ کہیں جنگ پہ سٹہ تو نہیں لگا بیٹھے ؟ " میں نے ہنستے ہوئے کہا ،

" ارے نہیں ، بس ایسے ہی ۔۔۔۔۔۔ سوچ رہا تھا کہ صرف دکھاوے کی گرما گرمی چلتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔ چھوڑو اسے ، تمہیں یاد ہے نائنٹیز کا کراچی ۔۔۔۔؟ ہر دوسرے دن ہڑتال ، فائرنگ ، بوری بند لاشیں ؟ "

" اسے کیسے بھول سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اخباروں میں لاشوں کی اطلاع نہیں گنتی چلتی تھی ۔۔۔۔۔۔ آج تیس تو کل چالیس ۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ " میں اچانک ٹھٹک کر بولا ۔۔۔۔۔۔ " ماجرا کیا ہے ۔۔۔۔۔؟ پہلے تمہیں وبا یاد آئی ۔۔۔۔۔۔ پھر تمہیں جنگ کی تمنا ستانے لگی ۔۔۔۔۔۔ اور اب تمہیں ہنگامے یاد آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ "

نہیں تو ۔۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی " اس نے ناخن سے کرسی کو کریدتے ہوئے کہا ،

نہیں کوئی تو بات ہے ۔۔۔۔۔ سچ سچ بتاوُ ؟ "

" کچھ خاص نہیں ۔۔۔۔۔۔ بات بس اتنی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جیتے جیتے تھک گیا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور خودکشی کرنے کا حوصلہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ سوچتا ہوں ، کوئی دوسرا ہی مار کر چلا جائے " اس نے سپاٹ چہرے سے کہا.

میرے حلق میں الفاظ اور سانس اٹک کر رہ گئے ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر وہ مجھے یاسیت سے تکتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جاتے ہوئے کہنے لگا ۔

" زندگی رہی تو پھر ملتے ہیں " اور میں اسے چپ چاپ جاتے دیکھتا رہا ۔