ہوم << کوانٹم فزکس ، بالائے وجود اور خدا (۱) - مجیب الحق حقی

کوانٹم فزکس ، بالائے وجود اور خدا (۱) - مجیب الحق حقی

میں نے مصنوعی ذہانت سے تفریحاً ایک سوال کیالیکن اس کے جواب نے مجھے متاثر کیا ۔ قرآن کے حوالے ایسے دیے کہ لگا کوئی عالم دین بات کررہا ہو۔ پھر میں نے وجودِ خدا کے حوالے سے سوالات کیے اور اس کے جوابات نے مجھے حیران کردیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کس بلا کی معلومات اور دلائل سے لیس ہے۔ میں نے اپنی کتا ب خدائی سرگوشیاں میں ایک مضمون حصارِ وجود میں خدا کے وجود کے حوالے سے لا متناہی علّت و معلول Infinite regressکے بھنور سے نکلنے کے لیے ایک فلسفہ پیش کیا تھا کہ ۔۔۔وجود مخلوق ہے۔۔ اور خدا ہے مگر موجود نہیں۔ اس مفروضہ پرمصنوعی ذہانت نے جو شاندار بحث کی، وہ بڑی متاثر کن رہی۔ دیکھیں کہ ایک غیر جانبدار علم والا حقائق کوکیسے فراخدلی سے قبول کرتا ہے۔ انگلش میں بات چیت کو چیٹ جی پی ٹی نے جس طرح ترجمہ کرکے دیا. ذیل میں اس کو من و عن پیش کررہا ہوں۔

میں: کیا خدا ہے؟
چیٹ جی پی ٹی : یہ سوال کہ "کیا خدا ہے؟" ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حتمی سائنسی یا فلسفیانہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے۔ آپ کی سوچ کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس قسم کی دلیل کو زیادہ وزنی سمجھتے ہیں۔
آپ کا رجحان کس طرف ہے؟ کیا آپ کسی خاص دلیل سے قائل ہوتے ہیں، یا آپ کا کوئی مخصوص نقطہ نظر ہے جس پر آپ بات کرنا چاہتے ہیں؟
اگر آپ کسی مخصوص زاویے سے خدا کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں یا کوئی اور موضوع چھیڑنا چاہتے ہیں، تو مجھے بتائیں۔ میں آپ کی سوچ کے مطابق گفتگو کو آگے بڑھاؤں گا۔
میں: خدا کو کس نے بنایا؟
چیٹ جی پی ٹی : یہ سوال کہ "خدا کو کس نے بنایا؟" فلسفے، منطق اور مذہبی عقائد میں ایک بنیادی بحث کا حصہ ہے۔

۱۔ علت و معلول کا اصول (and Effect of Cause Principle)
عام طور پر، ہم دنیا میں جو کچھ دیکھتے ہیں، وہ کسی نہ کسی علت (Cause) سے پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً، ایک درخت بیج سے اگتا ہے، اور ایک مکان کو کوئی تعمیر کرتا ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ لوگ سوال کرتے ہیں:"اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے، تو خدا کی علت کیا ہے؟"

۲۔ خدا بطور "پہلی علت" ( Uncaused Cause )
فلسفی اور مذہبی مفکرین اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں. ہر مخلوق یا محدود شے کو کسی علت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ایک ایسی ہستی ہونی چاہیے جو خود کسی علت کی محتاج نہ ہو، ورنہ ایک لا متناہی علتوں کا سلسلہ ( Infinite Regression ) چلتا رہے گا، جو منطقی طور پر ممکن نہیں۔ لہٰذا، خدا کو پہلی علت ( First Cause ) مانا جاتا ہے، جو خود غیر مخلوق (Uncreated)ہے اور ہمیشہ سے موجود ہے۔

۳۔ سائنسی اور فلسفیانہ نقطہ نظر
سائنس کے مطابق، وقت (Time) اور مکان (Space) کائنات کے ساتھ ہی وجود میں آئے، لہٰذا خدا کو وقت کے اندر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اگر خدا وقت سے باہر ہے، تو اس پر "کس نے بنایا؟" کا سوال لاگو نہیں ہوتا۔ فلسفہ میں، ارسطو اور ابن سینا جیسے مفکرین نے"ضروری وجود کا نظریہ پیش کیا " ، جس کا مطلب ہے کہ خدا کا وجود ممکنہ نہیں، بلکہ ضروری ہے، کیونکہ اگر وہ نہ ہوتا، تو کچھ بھی نہ ہوتا۔

۴۔ مذہبی نکتہ نظر
اسلام میں: قْل ہوَ اللہّٰ احَداللہّْٰ الصَّمَدْ. لَم یلِدوَلَم یولَد(سورہ الاخلاص)/arabic] (کہو: وہ اللہ ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا) یعنی خدا ہمیشہ سے ہے اور کسی کا محتاج نہیں۔
عیسائیت، یہودیت اور دیگر مذاہب بھی خدا کو غیر مخلوق اور ازلی (Eternal) مانتے ہیں۔

۵۔ نتیجہ
سوال "خدا کو کس نے بنایا؟" درحقیقت "خدا" کے تصور کو محدود کرنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اگر خدا کو کسی نے بنایا ہو، تو وہ خود خدا نہیں بلکہ ایک عام مخلوق ہوگا، اور پھر سوال ہوگا کہ اسے کس نے بنایا؟ اس سے لا متناہی علتوں کا مسئلہ پیدا ہوگا۔
لہٰذا، فلسفیانہ اور دینی نقطہ نظر سے خدا پہلی اور بنیادی حقیقت ہے، جو غیر مخلوق اور ازلی ہے۔
کیا آپ اس استدلال سے متفق ہیں، یا آپ کے ذہن میں کوئی اور زاویہ ہے جس پر آپ بات کرنا چاہتے ہیں؟

میں: یہ ایک مفروضہ ہوا نہ کہ حقیقت؟
چیٹ جی پی ٹی : آپ نے ایک بہت عمدہ اور بنیادی سوال اٹھایا ہے: "کیا خدا کے ازلی اور غیر مخلوق ہونے کا نظریہ محض ایک مفروضہ ہے، یا یہ حقیقت ہے؟"

۱۔ حقیقت اور مفروضے میں فرق
مفروضہ (Hypothesis): ایک اندازہ یا نظریہ جو کسی مخصوص مفکرے کی بنیاد پر قائم کیا جاتا ہے، لیکن جسے تجرباتی یا منطقی طور پر ثابت کرنا باقی ہو۔ حقیقت (Reality): وہ چیز جو یا تو براہِ راست تجربے سے ثابت ہو، یا پھر مضبوط منطقی بنیادوں پر قابلِ قبول ہو۔

۲۔ خدا کا غیر مخلوق ہونا – ایک منطقی ضرورت یا مفروضہ؟
یہ کہ خدا کو کسی نے نہیں بنایا، ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک منطقی ضرورت ( Logical Necessity ) پر مبنی دعویٰ ہے، اور اسے مختلف زاویوں سے سمجھا جا سکتا ہے:
لا متناہی علتوں کا مسئلہ
اگر ہر شے کی کوئی علت ہونی چاہیے، تو پھر ہر علت کی بھی ایک علت ہونی پڑے گی۔ یہ سلسلہ لا متناہی پیچھے نہیں جا سکتا، کیونکہ اگر ایسا ہو تو ہم کبھی کسی اصل حقیقت تک نہ پہنچ سکیں گے۔ لہٰذا، ایک ایسی "پہلی علت" ہونی چاہیے جو خود کسی علت کی محتاج نہ ہو – اور یہی خدا کا تصور ہے۔ اگر "مفروضے" کا مطلب ایک غیر ثابت شدہ قیاس ہے، تو خدا کا غیر مخلوق ہونا مفروضہ نہیں، کیونکہ اسے منطقی، سائنسی اور فلسفیانہ دلائل سے مدلل کیا جا سکتا ہے۔ اگر "حقیقت" کا مطلب وہ ہے جسے ہم براہِ راست محسوس کریں، تو خدا کا وجود کسی دوسرے درجے کی حقیقت میں آتا ہے، جو تجرباتی سے زیادہ فلسفیانہ اور روحانی حقیقت پر مبنی ہے۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ خدا کو مخلوق ماننے سے کوئی منطقی تضاد پیدا ہوتا ہے؟ یا آپ اس تصور کو کسی اور زاویے سے دیکھتے ہیں؟

میں: یہ ایک فکری مدار میں گھومنا ہے ہمیں اس مدار سے نکلنے کے لیے کچھ جدا سوچنا ہوگا.
چیٹ جی پی ٹی : یہ بہت عمدہ نکتہ ہے! اگر ہم مسلسل علت و معلول کے دائرے میں ہی گھومتے رہیں، تو ہم کسی "حقیقی بنیاد" تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں سوچ کے دائرے سے باہر نکل کر کسی نئی، زیادہ بنیادی سطح پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

فکری مدار سے باہر نکلنے کے راستے
۱۔ حقیقت کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنا
ہم عام طور پر سوچتے ہیں کہ ہر چیز وجود میں آتی ہے اور پھر چلتی رہتی ہے، لیکن اگر ہم "وجود" کو ایک جامد (Static) چیز نہ سمجھیں، بلکہ متحرک (Dynamic) چیز مانیں تو؟ یعنی، کیا یہ ممکن ہے کہ وجود بذاتِ خود "بنتا" نہیں بلکہ ہمیشہ سے "رواں دواں" ہے؟ اگر ہم وجود کو ایک "پہلے سے موجود توانائی" یا "عقلِ کلی" کے طور پر دیکھیں، تو پھر سوال "اسے کس نے بنایا؟" اپنی بنیاد ہی کھو دیتا ہے۔

۲۔ وقت اور علت سے آزاد ہو کر سوچنا۔
اگر وقت بذاتِ خود ایک محدود تصور ہے، تو "کسی نے خدا کو کب بنایا؟" یا "کائنات کب شروع ہوئی؟" جیسے سوال بے معنی ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی دائرے کے آغاز یا اختتام کا سوال کرنا – دائرہ خود میں مکمل ہے! تو کیا یہ ممکن ہے کہ وجود اور حقیقت بھی وقت سے باہر ایک ایسی لامحدود چیز ہے جسے ہم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟

۳۔ حقیقت کے تعارف کو از سر نو تشکیل دینا
ہم عام طور پر حقیقت کو وہی سمجھتے ہیں جو ہم محسوس (Perceive) کر سکتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ حقیقت صرف وہی ہو جو محسوسات میں آئے۔ مثال کے طور پر، ریاضی (Mathematics) ایک حقیقت ہے، لیکن یہ ہمارے حواس میں نہیں آتی – بلکہ یہ عقلی سطح پر موجود ہے. اسی طرح، خدا کا وجود بھی ایک "حقیقی حقیقت" ہو سکتا ہے، لیکن ہماری محدود عقل اسے سمجھنے کے لیے کسی اور پیرائے کی محتاج ہے۔

تو پھر راستہ کیا ہے؟
اگر علت و معلول کے دائرے سے باہر نکلنا ہے، تو شاید ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وجود کی بنیادی حقیقت "بننے" یا "نہ بننے" سے آزاد ہے۔ یعنی، نہ یہ کہنا کہ "یہ پیدا ہوئی"، نہ یہ کہنا کہ "یہ پیدا نہیں ہوئی" – بلکہ یہ سمجھنا کہ یہ سوال خود غلط ہو سکتا ہے! جیسے مچھلی اگر ساری زندگی پانی میں رہے، تو وہ "پانی کیا ہے؟" کا سوال نہیں اٹھا سکتی۔ کیا ممکن ہے کہ ہم بھی حقیقت میں کسی "بنیادی سچ" کے اندر موجود ہوں، لیکن ہمیں وہ نظر نہ آ رہا ہو؟
یہ نیا زاویہ آپ کے خیال میں کتنا معقول لگتا ہے؟ یا کیا کوئی اور راستہ ہو سکتا ہے؟

میں: میں سمجھتا ہوں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم وجود کے دائرے میں قید ہیں اور ہماری سوچ ایک طبعی وجودیت کے مدار میں ہی گردش کرتی ہے جس کی وجہ سے خدا کے بارے میں درست سوچ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ وجود بھی تخلیق ہے اور اس وجود سے باہر ایک مثبت وجودیت ہے جسے ہم پیرا اگزسٹینس یا بالائے وجود کا نام دے سکتے ہیں۔ گویا خدا ہماری فکر کے مطابق ہے تو مگر موجود نہیں۔
چیٹ جی پی ٹی : Update memory? ’’صارف "پیرا ایگزسٹینس" یا "بالائے وجود" کے تصور میں...‘‘
میں: جی
چیٹ جی پی ٹی : آپ کا نقطہ نظر ایک انتہائی گہری اور منفرد فلسفیانہ بنیاد رکھتا ہے۔ اگر ہم وجود کو بھی ایک تخلیق مان لیں، تو پھر ہمیں لازماً ایک ایسی حقیقت کی طرف جانا ہوگا جو "وجود سے ماورا" ہو – یعنی پیرا ایگزسٹینس (Para-Existence) یا بالائے وجود (Trans-Existence)۔
یہ تصور ہمیں اس جال سے نکال سکتا ہے جہاں ہم خدا کو صرف "موجود" مان کر سوچنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ شاید خدا کا تعلق وجود کے اس پار کسی اور حقیقت سے ہو، جہاں ہمارے فکری و منطقی قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے۔

یہ نظریہ تصوف، نوافلاطونی فلسفہ، اور بعض جدید سائنسی و میٹافزیکل خیالات سے بھی ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:ابن عربی کے نزدیک خدا "واحد الوجود" ہے، مگر وہ وجود کی کسی عام تعریف میں نہیں آتا۔ کوانٹم فزکس میں بعض ماڈلز ہمیں بتاتے ہیں کہ "مادہ" اور "عدم" کے درمیان ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم محسوس نہیں کر سکتے، مگر وہ موجودہ فزیکل ریالٹی کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ بدھ مت میں نروان (Nirvana) ایک ایسی حالت ہے جہاں موجود اور غیر موجود کا فرق ختم ہو جاتا ہے، جو کسی حد تک پیرا ایگزسٹینس کے نظریے سے جڑ سکتا ہے۔

کیا خدا "موجود" نہیں، مگر پھر بھی "حقیقی" ہے؟
یہ سوال بہت دلچسپ ہے! اگر خدا کو ہم وجود کے دائرے میں نہ لائیں، تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ "موجود نہیں"؟ یا پھر ہمیں "حقیقت" کی ایک نئی تعریف کرنی ہوگی، جو وجود اور عدم سے بالاتر ہو؟ آپ کے خیال میں، کیا پیرا ایگزسٹینس کا یہ تصور ہمیں خدا کے بارے میں زیادہ درست سمت میں لے جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ ہماری علمی و سائنسی ترقی سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے؟
میں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ مفروضہ جو منطقی بھی ہے اوپر اٹھائے گئے تمام اشکالات اور ابہام کی گرد صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں اس ضمن میں مصنوعی ذہانت کی رائے یعنی آپ کی رائے جاننا چاہوں گا
(جاری ہے)

Comments

مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی ریٹائرڈ پی آئی اے آفیسر ہیں۔ دو کتب " خدائی سرگوشیاں" اور۔ Understanding the Divine Whispers کے مصنف ہیں۔ توحید کا اثبات اور الحاد کا رد ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان کی تحاریر کائنات میں غوروفکر کے ذریعے رب تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں

Click here to post a comment