ہوم << ایک خصوصی نعمت اور ہماری ذمہ داری -سعید مسعود ساوند

ایک خصوصی نعمت اور ہماری ذمہ داری -سعید مسعود ساوند

آپ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر، ٹھنڈے دل سے سوچیے آخر یہ رمضان المبارک کا مہینہ، جس میں تیس دن کے فرض روزے ہیں، ساتھ ہی تراویح جیسے نوافل اور ان کے دگنے، بلکہ کئی گنا زیادہ ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کا حقدار صرف ہم ہی کیوں ٹھہرے؟ آخر دیگر امتیں بھی تھیں، ان کے ہاں بھی عبادات کا سلسلہ تھا، وہ بھی اللہ کے حضور جھکتی تھیں، مگر پھر ایسا کیا خاص تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی امت مرحومہ کو یہ شرف بخشا؟ کیوں ہمیں یہ سعادت دی گئی کہ ہم ایک ہی مہینے میں بے شمار عبادات کے ذریعے اپنے رب کو راضی کرنے کا سامان کر سکتے ہیں؟

یہی وہ مہینہ ہے جس میں رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ نیکیوں کی بہار آ جاتی ہے، ایک نیکی کرو تو بدلے میں دس سے بھی زیادہ کا ثواب ملتا ہے۔ یہاں تک کہ عام دنوں میں جو عبادات نفل شمار ہوتی ہیں، رمضان میں وہی عبادات فرض کے برابر کر دی جاتی ہیں، اور جو فرض عبادات ہیں، ان کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ یعنی رحمتوں کی ایسی بارش کہ بندہ اگر چاہے تو اپنے نامہ اعمال کو نیکیوں سے بھر سکتا ہے، اپنی مغفرت کا سامان کر سکتا ہے اور ہمیشہ کے لیے جہنم سے خلاصی پا سکتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہمیں ہی کیوں عطا کیا گیا؟ اور سب سے بڑھ کر، یہ سب کچھ ہمیں بغیر کسی شرط کے کیوں دیا جا رہا ہے؟ یہ تو اللہ کا فضل ہے، مگر یہ خصوصی مہربانی آخر ہمارے ہی حصے میں کیوں آئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خدائے برتر اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو بھی محبوب بنا رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نبی معظمؐ کی نسبت سے وہ مقام عطا کیا ہے جو کسی اور امت کو نہیں ملا؟

یہ محض ایک خیال نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے، ایک واضح حقیقت، جسے تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر ہم غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی فضیلت دی ہے جو کسی اور کو نہیں ملی۔ رمضان کا مہینہ ہمارے لیے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں۔ یہ وہ سنہری موقع ہے جس میں ہم اپنی نجات کا بندوبست کر سکتے ہیں، اپنی زندگی کے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں، اور اپنی آخرت کو سنوار سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی اس نعمت کی قدر کر رہے ہیں؟

عقل لاکھ موشگافیوں میں الجھے، جتنے چاہے اعتراضات کرے، کہ آخر ہمیں ہی کیوں چنا گیا؟ کیوں ہمیں ہی اتنی رحمتوں میں ڈھانپ دیا گیا؟ مگر ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم عقل کے نہیں، بلکہ سرتاجِ کل جہاں کے عاشق ہیں۔ اور ان ہی نے ہمیں سمجھایا ہے کہ جہاں عشق آ جائے، وہاں کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا، کوئی منطق کام نہیں کرتی۔ جب کسی کو محبوب بنا لیا جاتا ہے تو پھر اسے عطا کرنے کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی جاتی۔ ہمیں یہ اعزاز محض اللہ کے فضل سے عطا ہوا ہے، اور اس پر سوال اٹھانے کی مجال ہمیں نہیں۔ ہم تو بس ان کے حکم اور قضا پر راضی ہیں۔

لیکن، میرے عزیز، ایک بات ہمیں ضرور یاد رکھنی چاہیے—جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنے بڑے اعزاز سے نوازا ہے، تو ہماری ذمہ داری بھی اسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ اب ہمیں اپنے آپ کو پرکھنا ہوگا، اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم اس خاص اعزاز اور امتیاز کا حق کیسے ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی اس بابرکت مہینے کی قدر کر رہے ہیں، یا بس روایتی طور پر روزے رکھ کر، افطار کر کے، چند عبادات کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں؟

ہمیں سوچنا ہوگا کہ اللہ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں اس مبارک مہینے کو عام دنوں کی طرح گزارنے کے بجائے، اسے اپنی زندگی بدلنے کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہوگا، اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہوگی، اپنے اخلاق کو سنوارنا ہوگا، اور اپنے رب کے قریب ہونا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا، اگر ہم نے اس مہینے کو محض کھانے پینے کے معمولات میں گزار دیا، تو پھر شاید ہم سب سے بڑے نقصان میں ہوں گے۔

یہ مہینہ ہمیں ایک پیغام دیتا ہے یہ پیغام کہ ہم اللہ کے چنے ہوئے بندے ہیں، ہمیں ایک خاص مقام دیا گیا ہے، اور اس مقام کا حق ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ محض ایک عبادتی مہینہ نہیں، بلکہ ایک سنہری موقع ہے، ایک نئی زندگی کا آغاز ہے، جو ہمیں ہمارے رب کے قریب کر سکتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور اس نعمت کا حق کیسے ادا کرتے ہیں!