ہوم << ڈانسنگ فلور کے نام پر بےحیائی کا راج- نادیہ عنبر لودھی

ڈانسنگ فلور کے نام پر بےحیائی کا راج- نادیہ عنبر لودھی

جب ڈانسنگ فلور پر پاؤں ناچتے ہیں اور جسم تھرکتے ہیں تو راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کے درباروں کی شان یاد آجاتی ہے. جہاں گانا گانے اور ناچنے والیاں، اور طوائفیں پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مجرا کیا کرتی تھیں. دربار میں لگی ہوئی شاہی کرسیوں پر بیٹھے درباری یہ تماشا دیکھا کرتے تھے. شادی بیاہ کی تقریبات میں نواب طوائفوں کو بلوایا کرتے اور ان کے رقص سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ان طوائفوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ دربار سے منسلک ہوجاتی تھیں اور ان کا روزگار لگ جاتا تھا. انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو ان طوائفوں سے مال و دولت نکلوانے کے لیے ( جو ان طوائفوں نے بہت محنت سے ناچ کر اور گانے سنا کر جمع کیا تھا ) بہت حربے آزمائے. اسی سوچ کے تحت 1857ء کی جنگ آزادی میں ان طوائفوں کو بھی غدار قرار دے دیا گیا، اور ان کے کوٹھے غیر آباد ہوگئے. یہ قسمت کی ماریاں جان بچا کر دوسرے شہروں میں بھاگ گئیں، کچھ ماری گئیں، جبکہ کچھ کو فرنگیوں نے غلام بنا لی.

انگریزوں کے دور حکومت میں ایک دفعہ انگریز وائسرائے نے سر سید احمد خان سے کہا تھا کہ میری بیگم آپ کی بیگم سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں، جس پر سر سید احمد خان نے فرمایا "ہماری خواتین کا بھی آپ کی خواتین سے پردہ ہے - " اس مسلم قوم کی خواتین کا آج یہ عالم ہے کہ دوپٹہ ناپید ہوگیا ہے، اذان کے وقت دوپٹہ سر پر لینے کی روایت دم توڑتی جارہی ہے. عورت نے دوپٹے کو اضافی بوجھ سمجھ کر اتار پھینکا ہے، اور فی زمانہ دوپٹہ جاہل یا غریب ہونے کی نشانی سمجھا جانے لگا ہے. دلہن کی والدہ جو دلہن کی تربیت کیا کرتی تھیں، گھر گر ہستی کے ہنر سکھایا کرتی تھی، آج وہ ناچ گانے کی تربیت کاآغاز شادی سے ایک ماہ پہلے شروع کردیتی ہیں، جن کی گود میں نسلیں پرورش پاتی ہیں، انھیں شعور ہی نہیں رہا کہ نکاح کا حقیقی مقصد کیا ہے ؟

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد طوائفوں کا اپنے جسم کی نمائش سے پیسہ کمانے کا فن وقتی طور پر زوال کا شکار ہوگیا. پھر ہندوستان میں سینما آیا، فلمیں بننے لگیں تو ان طوائفوں کے دن بھی پھر گئے، یہ اداکاری کے جوہر دکھانے لگیں. اب فلمی ہیروئنوں کو دولت مند رئیس شادیوں میں بلانے لگے، اس طرح ان کے فن کی قدر ہونے لگی اور روزی روٹی بھی چلنے لگی.

پھر سماج نے نئی تہذیب کو روشناس کروایا. شادی ہال میں ڈانسنگ فلور بن گئے. مہندی کے نام پر ان ڈانسنگ فلورز پر اصل حسب نسب والی خاندانی شریف پڑھی لکھی خواتین اور نوجوان لڑکیاں ناچنے لگیں. اب داد دینے والے ان کے باپ ،بھائی ،شوہر ، خاندان کے افراد اور نئے سسرالی رشتہ دار ہوگئے. شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا. دلہن جس کا تصور شرم و حیا سے وابستہ ہے، وہ بھی ناچنے لگی اور اس کا ساتھ اس کے کزنز دینے لگے، جن میں لڑکے لڑکیاں شامل ہیں. دلہا دلہن کپل ڈانس کرنے لگے. دلہن کے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنے لگے. دوسری طرف لڑکے کی شادی ہے تو ادھر بھی یہی صورت حال ہے .

افسوس کا مقام یہ نہیں کہ حیا کا جنازہ نکل گیا بلکہ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ہم تیزی سے اسلامی اور مشرق روایات کو بدل رہے ہیں. شادی کی رسومات اب دس دن تک چلتی ہیں. ڈھولکی کے نام سے شروع ہونے والی یہ خرافات مایوں اور دیگر رسومات کے نام پر وقت اور پیسے کا ضیاع ہے. نکاح تو مسجد میں کیا جاتا ہے ، مگر وہاں خواتین بن سنور کر اوربے پردہ ہوکر فوٹو سیشن کرواتی ہیں. یہ کیا نکاح کا اسلامی طریقہ ہے؟

جس قوم میں سے غیرت نکل جائے، اس میں کچھ باقی نہیں رہتا. ہندوستان پر مغلوں کا اقتدار اس دن ہی ختم ہوگیا تھا جس دن غلام قادر روہیلہ نے دہلی کے دربار خاص میں بادشاہ وقت "شاہ عالم ثانی " کی آنکھیں نکلوا دی تھیں او مغل شہزادیوں کو ناچنے کا حکم دیا تھا ، جس کی تکمیل کی گئی تھی.
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے

اسلام دشمن عناصر کے حملوں میں سے سب سےسخت حملہ یہ ہے کہ " وہ آپ کو اپنے جیسا بنا لے"۔ مسلمان اپنی تہذیب، روایت، اسلامی تشخص، عقیدہ، نظریہ سب تبدیل کرلے. طرز فکر سے طرز زندگی تک سب غیر کی تقلید کے تابع ہوجائے. سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس تیزی سے معاشرے کی اقدار اور روایات بدل رہی ہیں، اگلے چند برس میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے !