ہوم << رمضان کا بابرکت مہینہ اور ہمارے اعمال - عاصمہ حسن

رمضان کا بابرکت مہینہ اور ہمارے اعمال - عاصمہ حسن

بحیثیت مسلمان ہم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے اور روزوں کی فضیلت و اہمیت سے بخوبی واقف ہیں. اس مہینہ میں عبادتوں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر اس مہینے کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا علم ہو جائے تو خواہش کی جائے گی کہ سارا سال رمضان ہی ہو جائے. اس ماہ کی اہمیت کیوں نہ ہو کیونکہ اِسی پاک مہینے میں قرآن مجید کا نزول ہوا. رمضان میں ہی طاق راتوں کو تلاش کیا جاتا ہے.

ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام
کہ نازل ہوا تجھ میں اللہ کا کلام

اس ماہ کا تقدس بہت زیادہ ہوتا ہے. ہر طرف ایک عجیب سا سرور چھایا ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ روزہ سے ہوتے ہیں، اور جو روزہ سے نہیں ہوتے وہ بھی روزہ داروں کا احترام کرتے ہیں، ان کے سامنے کھاتے پیتے نہیں ہیں. نمازوں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے. بے شک نمازیں ہر مسلمان پر فرض ہیں اور مرنے کے بعد پہلا سوال بھی نماز کے بارے میں ہی کیا جائے گا. یہ حقیقت جانتے ہوئے بھی کئی لوگ ڈنڈی مار جاتے ہیں، لیکن رمضان میں ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ نماز وقت پر ادا کی جائے، اور مسجد میں باجماعت ادا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے. یہ مہینہ گناہ بخشوانے کا موقع فراہم کرتا ہے ، لہٰذا سب کی کوشش ہوتی ہے کہ نیک کام کریں تاکہ اجر زیادہ مل سکے. کاش یہ سوچ سارا سال قائم رہے.

رمضان گیارہ مہینوں کے بعد آتا ہے اور تمام سال کی عبادت کے لیے طاقت و توانائی پیدا کرتا ہے‌، اجر و ثواب میں بھی فضیلت لے جاتا ہے. اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھا جاتا ہے، سحری و افطار کا اہتمام ہوتا ہے اور خاص طور پر دسترخوان سجتے ہیں، ہر روز کھانے میں کچھ نئے کی فرمائش ہوتی ہے، جیسے روزہ صرف کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے، تراویح ادا کی جاتی ہے لیکن کئی لوگ اس میں بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں یا بہت مشکل سے اونگھتے ہوئے امام صاحب کے پیچھے پڑھ پاتے ہیں. اس با برکت مہینے میں شبِ قدر کو تلاش کیا جاتا ہے، پھر زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کیا جاتا ہے، روزہ داروں کا روزہ کھلوایا جاتا ہے، غریب' مسکین' نادار' بیواؤں ' یتیموں اور ضرورت مندوں کی مالی امداد کی جاتی ہے. ایسا نہیں کہ پورا سال یہ کام نہیں کیا جاتا لیکن اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ کیا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل کی جا سکے. ویسے بھی ہم وہ قوم ہیں جو عمومی طور پر ہر کام اپنے فائدے کے لیے کرتے ہیں.

پھر ہم صدقہ و خیرات اس نیت سے بھی کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ہم اُس طرح عبادت کا حق ادا نہ کر سکیں ہوں، یا کہیں تلاوت اور نمازوں میں کوئی کمی بیشی رہ گئی ہو، اور ہماری عبادت قبولیت کا وہ مقام حاصل نہ کر سکے تو اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے سے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ہماری عبادتوں، ریاضتوں کو قبول فرما لے اور کسی کے دل سے دی گئی دعا کام کر جائے اور ہمارے لیے وسیلہ نجات بن جائے.

جیسے رمضان کے بابرکت مہینے کا پورا سال بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے وہیں یہ مہینہ پَلک جھپکا کر گزر بھی جاتا ہے. پھر ہم کہتے ہیں کہ رمضان کا تو پتہ ہی نہیں چلا اور پھر فوراً سے ہم اپنی پرانی روش پر واپس آ جاتے ہیں. وہی گالم گلوچ کرنا، بے ایمانی، چغل خوری، کام چوری شروع کر دیتے ہیں، ویسے تو کئی لوگ یہ سلسلہ رمضان میں بھی جاری رکھتے ہیں. جیسے ہی رمضان کا آغاز ہوتا ہے یا ہونے لگتا ہے تو ہر چیز بشمول پھل، سبزی، دالیں سب کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگتی ہیں، کیونکہ یہ منافع کمانے کا مہینہ بھی کہلاتا ہے، پھر سارا ملبہ شیطان پر آ جاتا ہے کہ وہ بھٹکاتا ہے، لیکن شیطان کو تو قید کر دیا جاتا ہے، لہذا ہم خود ہی فساد کی جڑ ہیں، شیطان تو ایسے ہی بدنام ہے.

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جیسےکیسے اگر ہم اپنے نفس کو ایک مہینے کے لیے روک سکتے ہیں، قابو کر سکتے ہیں تو پورے سال کے لیے کیوں نہیں؟ ہم اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں اور احکامات پر ایک مہینہ بھی تو عمل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، تو پھر پورا سال یا اپنی پوری زندگی انھی اصولوں پر کیوں نہیں گزار سکتے جیسا کہ حکم ہے. ہم صبر واستقامت اور تقوٰی کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے. ہم دردمندی پورا سال اپنے دل میں کیوں نہیں رکھ سکتے. ہم انسانیت کے ناطے لوگوں کی مدد سارا سال کیوں نہیں کر سکتے. ہم رحم دلی اور لوگوں کو معاف کرنا کیوں نہیں سیکھتے. ہم اپنے دیگر معاملات کیوں نہیں سدھار سکتے، ہم بھوکے کو کھانا کیوں نہیں کھلا سکتے. جب ہم یہ سب ایک مہینہ میں کر سکتے ہیں تو باقی مہینوں میں کیوں نہیں کر سکتے.

جہاں ہم نے رمضان میں اپنی عادات کو بدلا، اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لے کر آئے، وہیں کچھ مسائل یا ہماری اپنی حرکتیں بھی ہیں جن کی وجہ سے رمضان کا تقدس پامال ہوتا ہے، جیسا کہ ساری رات جاگنا اور سحری کر کے سارا دن سونا. اللہ تعالٰی کو صرف ہمارے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ہے. نماز کی بروقت ادائیگی، تلاوت، تقوی اپنانا، اپنے نفس کو قابو میں رکھنا، دوسروں کی ہر طرح سے مدد کرنا سب اس میں شامل ہے. روزہ ایک پورا پیکیج ہے، لیکن ہم یہ سب بھول جاتے ہیں، یاد رہتا ہے تو صرف سونا اور کھانا پینا.

وہ لوگ جو نوکری پیشہ ہیں، وہ اپنے دفتروں میں جاتے تو ضرور ہیں کیونکہ مجبوری ہے، لیکن نیند پوری نہ ہونے کے بہانے بناتے ہیں. خود کو روزہ کی وجہ سے نڈھال ظاہر کرتے ہیں، بہانے تراشتے ہیں کہ روزہ لگ رہا ہے، کام نہیں ہو سکے گا.سستی کا ماحول ہر طرف دیکھنے کو ملتا ہے جیسے سونے، کھانا کھانے اور پینے کے لیے اس دنیا میں تشریف لے کر آئے ہیں. پھر جو کاروباری حضرات ہیں وہ اپنی دکانیں تاخیر سے کھولتے ہیں جس سے روزمرہ زندگی کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے. ہم میں سے بیشتر لوگ ایمانداری اور ذمہ داری سے اپنا کام نہیں کرتے.

رمضان کے مہینے میں صدقہ و خیرات کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے لیکن پیشہ ور بھکاری خاص طور پر اس مہینے کو کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، جس سے حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے. ایسے میں یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے پیشہ ور گداگیروں کی حوصلہ شکنی کریں. مزید یہ کہ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور ان مستحق لوگوں یا رشتہ داروں کی مدد کریں جو اپنی عزتِ نفس کی وجہ سے مانگ نہیں سکتے. اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ جب کسی لاچار کی مدد کریں تو اشتہار نہ لگائیں، نہ ہی کسی کو بتائیں اور نہ ہی تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر لگائیں، اور نہ ہی کوئی ایسا عمل کریں جس سے مدد لینے والے کی عزت مجروح ہو . نیکی کر لی ہے، بہت اچھی بات ہے، اب اس کو جتلا کر ضائع نہ کریں بلکہ کر کے بھول جائیں. ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے اس رب کا کہ جس نے ہمیں دینے والوں میں سے بنایا ہے، جبکہ اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے، کیونکہ ہم نے اس کے دیے ہوئے میں سے ہی دینا ہے اور وہی نوازنے والا ہے .

اللہ تعالٰی ہمیں رمضان المبارک کی قدر و اہمیت کوسمجھنے اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، خود کو بدلنے کا جو موقع ہمیں فراہم کیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کی صلاحیت عطا کرے، ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کو قبول فرمائے، زیادہ سے زیادہ اپنا نام لینے کی توفیق عطا فرمائے، اپنا قرب عطا کرے اور ہمارے گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے، ایمان پر خاتمہ فرمائے، آخرت میں جنت الفردوس عطا فرمائے اور رمضان اور رمضان کے علاوہ بھی ہمیں اچھا اور سچا مسلمان بننے کی ہمت و طاقت عطا کرے.آمین ثم آمین
خوش رہیں، آسانیاں اور خوشیاں بانٹنے والے بنیں.

Comments

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment