غربت ایک ایسا عذاب ہے جو قبروں تک پیچھا کرتا ہے. وجہ یہ ہوتی کہ غریب کی غربت سے خوب کھیلا جاتا ہے، غریب کو اچھے سے باور کرایا جاتا ہے کہ وہ غریب ہے، اس کی مفلسی کے جھنڈے لگاۓ جاتے ہیں اور بد نصیبی سے اس ملک میں غریب کو نسلوں تک غریب رکھے جانے کا باقاعدہ انتظام بھی کیا جاتا ہے. حال ہی میں ایک اور ایسا اقدام عمل میں لایا گیا ہے.یہ غریب کی نسل کو اس کے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چلانے کی منظم کوشش کی گئی.
*سرکاری سکولوں میں ہفتے کی چھٹی *
اس بابت ایک سرکاری حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ ہفتے کے روز بچوں کو سکول سے چھٹی ہوگی ، اساتذہ کرام سکول میں آکر نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے نئے"آئیڈیاز" پر کام کریں گے .
سرکاری اسکولوں میں نظام تعلیم پہلے ہی "یخ ٹھنڈا " ہے. آدھا سال تو سرکاری چھٹیاں ہوتی ہیں، جن میں کبھی گرمی کی چھٹیاں تو کبھی سردی کی چھٹیاں، اس کے ساتھ ہر تہوار کی چھٹی اور ملک کے کسی کونے میں کوئی احتجاج کا اعلان ہو تو ''سکول بند رہیں گے " کا اعلامیہ جاری ہو جاتا ہے، اب رہی سہی کسر اس ہفتہ وار چھٹی نے نکال دی۔۔۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اس حکم نامے کے کیخلاف پوری قوم سراپا احتجاج ہوتی مگر یہ درد صرف غریب کا درد ہے، اس میں نقصان صرف غریب کے بچے کا ہے. متوسط طبقے کے بچوں کو تو اس سے کوئی فرق نہیں ہے. وہ تو پڑھ رہے ہیں کیوںکہ وہ سرکاری سکولوں میں نہیں بلکہ پرائیوٹ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور جن کے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں، ان بچاروں کے ہزار اور دکھ ہیں، ان کی گردنوں میں مہنگائی کا طوق لٹک رہا ہے، ان کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوۓ ہیں. ان کو کیا لگے احتجاج کیا ہوتا ہے، حق کیا ہوتا ہے، ان کی طرف سے سب جاۓ پہاڑ میں، بس کسی طریقے سے چولہا جلتا رہے، وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ ایک دن احتجاج کے لیے وقف کریں گے ، تو دس دن تاب نہیں لا سکیں گے،.
سرکاری سکولوں میں نظام تعلیم اس قدر تباہ ہو چکا ہے کہ معاشرے میں ایک دیہاڑی دار بھی چاہتا ہے اس کا بچہ کسی پرائیوٹ ادارے میں تعلیم حاصل کرے ، تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کم از کم اس ظالم سماج میں سکھ کے چند سانس لے سکے. اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے بھی ان مظلوموں کو سہی تگنی کا ناچ نچاتے ہیں، ان سے بھی جہاں تک ہوسکے ان غریبوں کی خوب بجاتے ہیں. اسکولوں کی دیواریں اس جملے کا بوجھ اٹھاۓ کھڑی ہیں کہ "آئیں دیکھیں ہم کیسے فروعِ تعلیم کے لیے کوشاں ہیں " اس ملک میں یہ جملہ درست نہیں ہے،اس بدبودار نظام میں لفظ فروغِ تعلیم کی جگہ فروختِ تعلیم ہونا چاہیے، "آئیں دیکھیں ہم فروختِ تعلیم کے لیے کیسے کوشاں ہیں "
تبصرہ لکھیے