ہوم << ایک نظم -عبدالغفار غفی

ایک نظم -عبدالغفار غفی

میخانوں میں بکتی ہوئی ایک سو سال پرانی وائن کی بوتل کی قسم۔۔۔!
تیرے ماتھے کی جھریوں، تیرے کپکپاتے ہاتھ، تیری دھیمی سے چلتی نبض سے مجھے آج بھی محبت ہے۔!

مدار در مدار زمین کے رقص کا آخری چکر اگر گواہی دے میرے گزرے ہوئے اسی برس۔!
تیرے ہجر میں اجڑی ہوئی پناہ گاہوں میں تیرے پوتوں سے کہنے سننے میں گزر گئے۔۔۔!

میرے ہم عمروں میں سے سینکڑوں لوگ اپنی وفادار بیویوں سے جنے بچوں کے ہاتھوں دفن ہو گئے۔۔۔!
مگر میں ہوں کہ ایک بے ساختہ سی زندگی سے نجات پانے کو اعلان انتقال کے انتظار میں ہوں۔۔۔!

مگر وعدہ پورا نہیں ہو رہا، دل کے وال سہی چل رہے ہیں، بے بسی کی وہ انتہا ہے کہ مر نہیں رہا۔۔۔!
میں اس شعبدہ باز دنیا کا اکیلا کھلاڑی ہوں جس کے معیار کا دوسرا پاگل سر پھرا مل نہیں رہا۔۔۔!

اس نظم کی آخری سطر میں آخری فریاد کو اگر کوئی وقت پر پڑھے تو جنت کی بشارت ہے۔۔۔!
آٹھ دھائی پہلے پیدا ہوئی لڑکی کی قبر کے پاؤں کی طرف میری پہلی اور آخری عمارت ہے۔۔۔!

ٹیگز