ہوم << ”بلاسفیمی بزنس“کا ہنگامہ - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

”بلاسفیمی بزنس“کا ہنگامہ - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ”بلاسفیمی بزنس“ کے حوالے سے شور برپا ہے اور کہا جارہا ہے کہ کچھ وکیل، کچھ خفیہ ایجنسیوں کے افسر، کچھ پولیس اہلکار اور یہاں تک کہ کچھ جج بھی مل کر توہینِ مذہب کے نام پر کاروبار چلا رہے ہیں، اور بے گناہ نوجوانوں کو باقاعدہ جال میں پھنسا کر ان کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات قائم کرتے ہیں۔

کئی دوست اس سلسلے میں میری راے پوچھ رہے ہیں۔ اس لیے چند نکات پیشِ خدمت ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بے مہار انٹرنیٹ اور بے مہار سوشل میڈیا کی آمد کے بعد توہینِ مذہب کے واقعات میں ہوشربا اضافہ یقیناً دیکھنے میں آیا ہے۔ 2006ء میں جب بعض یورپی ممالک میں اخبارات نے گستاخانہ خاکے شائع کیے، تو ہمارے ہاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ خاکے بنانے والوں اور شائع کرنے والوں کے خلاف پاکستان میں ایف آئی آر درج کرانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ انھوں نے یہ حکم بھی جاری کیا تھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ان ویب سائٹس کو بلاک کرے اور ان تک رسائی روکے۔

اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ وقتاً فوقتاً یہ معاملات حکومت اور عدالت کے سامنے اٹھائے جاتے رہے اور ان پر حکومتی اور عدالتی احکامات بھی آتے گئے۔ چنانچہ پی ٹی اے نے باقاعدہ اس مقصد کےلیے عملہ مختص کیا اور ان ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا کام شروع کیا۔
پچھلے سال سپریم کورٹ میں کام کے دوران میں ہم نے کچھ معلومات حاصل کیں، تو معلوم ہوا کہ 2015ء سے 2024ء تک پی ٹی اے کو مختلف ویب سائٹس کے متعلق 29 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں اور پی ٹی اے نے ان میں 28 ہزار سے زائد ویب سائٹس کے متعلق فیصلہ کیا کہ ان پر واقعی گستاخانہ مواد موجود تھا۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک حکم پر ہایئر ایجوکیشن کمیشن، وزارتِ مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اس معاملے میں آگاہی کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ان کے مشاورتی اجلاسوں میں مجھے بھی کئی بار شرکت کےلیے بلایا گیا اور جو مواد ہمارے سامنے آیا وہ انتہائی حد تک اشتعال انگیز گستاخی پر مشتمل تھا۔

اس لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی موجودگی سے انکار ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مسئلہ موجود ہے اور انتہائی سنگین شکلوں میں موجود ہے۔ ایک اسلامی ریاست جس میں 97 فیصد آبادی مسلمان ہے، کا آئین و قانون کے تحت لازمی فریضہ ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کےلیے اقدامات کرے۔

ایسے اقدامات کے سلسلے میں یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات کچھ بے گناہ لوگ بھی لپیٹ میں آجائیں۔ اس لیے حد درجے احتیاط تو ضروری ہے ہی، لیکن آئین اور قانون کی مقررہ حدود کی پابندی بھی لازم ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار قانون نافذ کرنے والے اداروں، تفتیشی افسران اور پھر عدالتوں کا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ان اداروں کی کارکردگی بالکل بھی قابلِ ستائش نہیں ہے۔ بعض مقدمات میں شکایت کنندہ، بعض میں پولیس، بعض میں تفتیشی افسران، بعض میں عدالتی فیصلے پر میں خود بھی تنقید کرتا آیا ہوں۔

تاہم یہ کہنا کہ ایک پورا گینگ ہے جس نے اس مسئلے سے مالی فوائد کے حصول کےلیے اسے کاروبار کی شکل دے دی ہے، بہت بڑی بات ہے، اور جیسے کسی کو گستاخ قرار دینے سے قبل انتہائی احتیاط اور ناقابلِ تردید شواہد عدالت میں پیش کرنے ضروری ہوتے ہیں، ایسے ہی کسی پر اتنا بڑا الزام لگانے سے قبل بھی اسی طرح کی احتیاط اور اسی نوعیت کے شواہد کی ضرورت ہے۔

یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ اگر یہ الزام درست ہے، تو یہ صرف قانون کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے بلکہ یہ بذاتِ خود توہینِ مذہب اور گستاخی کی بدترین صورت ہے۔اس لیے "بلاسفیمی بزنس" کا الزام لگانے والے، اور اس الزام کو آگے پھیلانے والے، درحقیقت وہی کام کررہے ہیں جس پر وہ دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اب تک اس الزام کےلیے سب کا انحصار احمد نورانی کی رپورٹ پر ہے۔ اس رپورٹ میں ہی کچھ لوگ اب اپنی جانب سے تڑکا لگارہے ہیں، یا لچ تل رہے ہیں، اور ایک مخصوص لابی باقاعدہ مرچ مسالا لگا کر اسے آگے پھیلا رہی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس رپورٹ کو جانچے پرکھے بغیر مسترد کیا جائے، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ آنکھیں بند کرکے اس رپورٹ پر ایمان لا کر اسے پورے ”لامذہبی جوش و خروش“ سے آگے پھیلانے والوں پر بھی نظر رکھیے اور سب کچھ جوں کا توں قبول مت کیجیے۔

جن سرکاری اہلکاروں یا وکیلوں پر یہ الزام لگایا گیا ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف اپنا مؤقف پوری وضاحت کے ساتھ پیش کریں، بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ اگر وہ اس الزام کو جھوٹا سمجھتے ہیں، تو الزام لگانے والوں کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی کریں۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج، جنھوں نے "ذاتی وجوہات کی بنا پر" استعفا دے دیا ہے، کو خصوصاً ہدف بنایا جارہا ہے۔ اسلام آباد کے وکیلوں میں ان کی اچھی شہرت رہی ہے، اور بطورِ جج ان کی کارکردگی پر بھی اس مخصوص الزام سے قبل کوئی سوالیہ نشان نظر نہیں آیا۔ ان پر خصوصاً لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں حقیقت سامنے لائیں۔ خاموشی کوئی آپشن نہیں ہے۔

اس مسئلے کے تناظر میں ایک بار پھر میں اس طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں رائج توہینِ مذہب کی سزا کے قانون پر خود اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے کئی سوالات اٹھتے ہیں، اور اس پہلو سے اس قانون کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کام کےلیے بزرگ علمائے کرام کو ہی آگے آنا ہوگا۔ بدقسمتی سے یہ معاملہ جذباتی نوجوانوں کے ہاتھ چھوڑ دیا گیا ہے اور ہر طرف إمارۃ الصبیان کے آثار ہی نظر آتے ہیں۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔

Comments

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment