ہوم << شیرہ شہد اور کتا کڑاہی - عبیداللہ کیہر

شیرہ شہد اور کتا کڑاہی - عبیداللہ کیہر

ہمارے دوست شکیل احمد فہیم سیر و سیاحت کے بہت شوقین ہیں اور اکثر سفر و سیاحت کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ 2011ء کے دسمبر میں شکیل بھائی نے پروگرام بنایا کہ اپنی گاڑی پر چلتے ہیں اور پاکستان کے سارے قلعے دیکھتے ہیں۔ ہمیں بھی ان کا یہ پروگرام پسند آیا۔ میرے علاوہ شکیل بھائی کے دو اور دوست بھی تیار ہو گئے اور ہم ایک دن ان کے شہر میرپور خاص سے نکل پڑے۔ ہفتے دس دن میں حیدرآباد سے جہلم تک راستے میں آنے والے تقریباً سارے قلعے دیکھتے ہوئے اسلام آباد تک پہنچ گئے۔ کوٹ ڈیجی خیرپور، قلعہ دراوڑ چولستان، قلعہ کہنہ ملتان، شاہی قلعہ لاہور، ہرن مینار شیخوپورہ، قلعہ روہتاس جہلم … وغیرہ وغیرہ۔ بڑا دلچسپ اور معلوماتی سفر رہا۔

پنجاب میں داخل ہو کر جو سب سے پہلا قلعہ ملتا ہے وہ صحرائے چولستان کا قلعہ دراوڑ ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے صحرا میں اندر تک جانا پڑتا ہے۔ دسمبر میں ملتان اور بہاولپور کے اطراف میں سرسوں کی فصل عروج پر ہوتی ہے۔ دور دور تک کھیتوں میں ہریالی کے ساتھ ساتھ پیلے پھول بھی لہلہا رہے ہوتے ہیں اور بڑا دلفریب منظر ہوتا ہے۔ ہم سرسوں کے وسیع کھیتوں سے گزرتے ہوئے قلعہ دراوڑ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ سرسوں کے ان کھیتوں کے کنارے اکثر جگہ سڑک کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ خیمے لگائے بیٹھے ہیں اور انہوں نے اپنے خیموں کے اطراف میں دور دور تک شہد کے چھتوں والے لکڑی کے ڈبے پھیلائے ہوئے ہیں۔ میں نے ایک جگہ گاڑی روکی اور اتر کر ان چھتے والوں کے پاس گیا۔

”شہد ہے آپ کے پاس؟“میں نے خیمے کے باہر ایک پٹھان بھائی کو بیٹھے دیکھا تو اس سے پوچھا۔
”ہاں جی … ہے“وہ بولا۔
”کیا یہ شہد انہی سرسوں کے پھولوں سے جمع کیا ہے مکھیوں نے؟“میں بولا۔
”جی سر“وہ بولا۔ ”ادھر سے ہی جمع کیا ہے“
”تو یہ شہد بیچتے ہیں آپ؟“ میں بولا۔
”جی سر بیچ دیں گے اگر آپ کو خریدنا ہے، لیکن یہ شہد آپ کو پسند نہیں آئے گا۔“ وہ بولا۔
”کیوں؟“ میں حیران ہوا۔
”سرسوں کے شہد کا ذائقہ بہت خراب ہوتا ہے جی۔ یہ لوگ نہیں کھاتے۔ بہت بد ذائقہ ہوتاہے۔“ وہ بولا۔
”تو پھر آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں اتنے سارے چھتے لے کر؟… جب آپ کو یہ شہد بیچنا ہی نہیں ہے تو جمع کیوں کر رہے ہیں؟… خواہ مخواہ مکھیوں سے محنت کرا رہے ہیں؟“میں حیران ہو کر بولا۔
”سر اس موسم میں ہم لوگ ادھر شہد جمع کرنے نہیں آتے، ہم تو بس اپنی مکھیوں کو زندہ رکھنے کیلئے آتے ہیں“ وہ سادگی سے بولا۔
”مکھیوں کو زندہ رکھنے کےلیے؟ … کیا مطلب؟“ میں حیرت سے بولا۔
”صاحب یہ جو شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں یہ پھلوں اور پھولوں کا رس چوس کر اپنی خوراک جمع کرتی ہیں۔ اس رس سے یہ جو شہد بناتی ہیں وہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ان کو بھی خوراک مل جاتی ہے اور انسانوں کیلئے بھی جمع ہو جاتا ہے۔ گرمی اور بہار کے موسم میں ہم پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں بہت پھل پھول ہوتے ہیں، سبزہ ہوتا ہے، پانی ہوتا ہے، اس لئے ہم وہاں چھتے لگاتے ہیں۔ پھولوں کے رس کے ساتھ ساتھ شہد کی مکھی کو پانی بھی چاہیے ہوتا ہے۔ یہ بہت پانی پیتی ہے۔ توجہاں شہد کی مکھیوں کو زیادہ پھل پھول اور پانی ملے وہاں یہ شہد بھی زیادہ پیدا کرتی ہیں۔ ہمارے پاس یہ پالتو مکھیاں ہوتی ہیں۔ ان مکھیوں کی قیمت لاکھوں روپے ہوتی ہے۔
جب سردی کا موسم آ جاتا ہے، پھل پھول ختم ہو جاتے ہیں، درختوں کے پتے گر جاتے ہیں، پودے سوکھ جاتے ہیں اور پانی کم ہوجاتا ہے تو یہ مکھیاں بڑی پریشان ہو جاتی ہیں۔ انسانوں کےلیے شہد بنانا تو چھوڑیں، ان کو اپنی خوراک مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر یہ بھوک کی وجہ سے مرنے لگ جائیں تو ہمارا بڑا نقصان ہے۔ اس سے بچنے کےلیے ہم پہاڑی علاقوں سے ان کے چھتے ٹرکوں میں ڈال کر یہاں میدانی علاقوں میں آجاتے ہیں۔ یہاں سخت سردی کے باوجود ہر طرف سرسوں کے پھول بھی ہوتے ہیں اور ان کے اندر رس بھی ہوتا ہے۔ جب ہم مکھیوں کو یہاں چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ان پھولوں کا رس چوستی ہیں، شہد بناتی ہیں اور اسے کھا کر اپنے آپ کو زندہ رکھتی ہیں۔ سرسوں کا شہد مکھیوں کے خود کھانے کےلیے تو ٹھیک ہوتا ہے لیکن اس کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا۔ اس لیے لوگ اس کو استعمال کرنا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یہ شہد فروخت کرنے کیلئے ٹھیک نہیں ہوتا، بس اس کو کھا کر مکھیاں زندہ بھی رہتی ہیں اور بچے بھی پیدا کرتی ہیں۔ تو اگر ہم دس لاکھ مکھیاں لے کر یہاں آ جائیں اور پندرہ لاکھ واپس لے کر جائیں تو نہ صرف ہماری مکھیاں مرنے سے بچ جاتی ہیں بلکہ ہماری مکھیوں کی تعداد میں بھی لاکھوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی مکھیوں کو یہاں لے کر نہیں آ سکتے تو ہمیں ان کو سستا شیرہ بھی دینا پڑتا ہے جسے کھا کر مکھیاں خود کو مشکل سے زندہ رکھتی ہیں۔ لیکن بعد میں ہم لوگوں سے سنتے ہیں کہ یہ جعلی شہد ہے کیونکہ یہ مکھیوں کو سستا شیرہ، چینی اور گڑ کھلا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر مکھیوں کو چینی کھلا کر ہی شہد حاصل کرنا ہو تو یہ مکھیاں آٹھ کلو چینی کھا کر مشکل سے ایک کلو شہد بنائیں گی۔ آٹھ کلو چینی کی قیمت ویسے ہی ایک کلو شہد سے زیادہ ہو جاتی ہے اس لیے یہ کام ممکن ہی نہیں۔ سر ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کو یہ بول دینا بہت آسان ہے کہ یہ جعلی ہے۔ یہ گدھے کا گوشت ہے، یہ مری ہوئی مرغی کا سالن ہے، یہ کتے کے گوشت کی کڑاہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ کسی ہوٹل کی تصویریں سوشل میڈیا پر اس طرح ڈال دیتے ہیں کہ ایک تصویر تو مرے ہوئے کتوں کی ہوتی ہے اور دوسری کڑاہی گوشت کی … اور کیپشن یہ لگا ہوتا ہے کہ دیکھو یہ ہوٹل لوگوں کو کتے کی کڑاہی کھلا رہا ہے۔ لیکن اصل میں مرے ہوئے کتوں کی تصویر کسی سرکاری کتا مار مہم کی ہوتی ہے اور ہوٹل کی تصویر کسی اور جگہ کی ہوتی ہے، بس صرف کیپشن میں یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو یہاں گاہکوں کو کتے کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ ایسے ہی لوگ بہت غیر ذمہ داری کے ساتھ شہد کیلئے بھی یہ کہتے رہتے ہیں کہ یہ اصلی پھولوں کا شہد تھوڑی ہے، یہ تو شہد کی مکھیوں کو گڑ، چینی اور شیرہ کھلا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ کیا جب سردیوں میں شہد کی مکھیاں مرنے لگیں تو اس وقت ہم ان کو مرنے سے بچانے کیلئے یہ چیزیں بھی نہ دیں؟ … ان کو مرنے دیں؟…“

پٹھان بھائی تو یہ درد بھری داستان سنا کر چپ ہو گئے اور میں سوچنے لگا کہ لوگ صرف اس بات کو بنیاد بنا کر شہد فارمنگ کے پورے کام کو ہی جعلی قرار دے دیتے ہیں۔ حالانکہ آج ملک میں جگہ جگہ شہد کی فارمنگ ہو رہی ہے جہاں بہت بہترین قسم کا شہد بہت کم خرچ میں حاصل کیا جاتا ہے۔ جعلی شہد بنانے میں جو خرچہ آ سکتا ہے تقریباً اسی میں اصلی شہد پیدا ہو جاتا ہے۔ آج پاکستان میں ہمیں جو فارمی شہد ملتا ہے وہ زیادہ تر اصلی پھولوں کا ہی ہوتا ہے۔ مکھیوں کو چینی کھلا کر شہد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

Comments

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment