گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کا شکار رہا ہے ۔یہ سنگین مسائل پاکستان کی سالمیت کے لیے اہم سیکیورٹی چیلنجز کی صورت اختیار کر گئے ۔ 9/11کے بعد دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ بم دھماکے، ٹارگیٹ کلنگ ، خود کش حملے ، حکومتی تنصیبات و اہلکاروں کو نشانہ بنانا ، ایک معمول بن گیا ۔ ان سے نمٹنا حکومت اور ریاست کے لیے ایک چیلنج بن گیا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2001 سے 2022 تک پاکستان نے 83 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا اور 35 کھرب روپے سے زیادہ کا مالی نقصان برداشت کیا۔ اس کے علاوہ ، ان مسائل نےنہ صرف پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے کوبری طرح متاثر کیا بلکہ قوم کی اجتمائی نفسیات پر بھی گہرے نقوش چھوڑے۔
اس دوران ریاستی و حکومتی سطح پر کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں ملٹری آپریشنز ، گفت و شنید، وغیرہ شامل ہیں لیکن ممکنہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔ کیونکہ ان اقدامات کو وہ عوامی پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ اس کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ حکومتوں اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کا ہونا تھا۔ ریاست اور عوام سوچ اور فکر کے حوالے سے ایک صفحے پر نہیں تھے ، یہی وجہ ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیےپاکستان کا کوئی مشترکہ بیانیہ تشکیل نہ دیا جا سکا۔ ان مسائل کے سدباب کے لیےایک جامع حکمت عملی وقت کی ضرورت بن گئی اور اس بات کو ضروری سمجھا گیا کہ ریاستی سطح پر ایک قومی بیانیہ ہونا چاہیے تاکہ انتہا پسندانہ سوچ و فکر کو انفرادی اور اجتمائی دونوں سطحوں پر شکست دی جاسکے۔
قومی بیانیہ
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کے قومی بیانیے کاجائزہ لینے سے پہلے "قومی بیاینہ "کی اصطلاح کی معنی و مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایاد بوستینے کے مطابق، قومی بیانیہ سے مراد "وہ لائحہ عمل ہے جس سے سماجی زندگی کو سمجھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ جس سے تاریخی حقائق کو آپس میں جوڑا جاتا ہے تاکہ ہماری زندگیوں کو معنی دیےجا سکے، جس سے ماضی، حال اور مستقبل ایک مربوط اور مسلسل فکری عمل میں معنی پیدا کرتے ہیں۔ وہ معلومات جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی ہیں۔" یہ ایک قسم کی حکمت عملی ہوتی ہے جس کے ذریعے ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات اور مسائل سے نمٹا جا تا ہے۔
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف قومی بیانیے کو پیغامِ پاکستان کا پرتو کہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ بیانیہ اس کی اہم خصوصیات پر مشتمل ہے ۔ پیغامِ پاکستان دراصل ایک متفقہ فتویٰ ہے جو 2018 میں جاری ہو ا۔ یہ فتویٰ مذکورہ چیلینجز کے خلاف ریاست پاکستان کاایک متبادل یا جوابی بیانیہ تھا ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس فتویٰ پر پاکستان کے تمام مسلم مکاتبِ فکر کے تقریباً 1800 سے زائد علماکرام نے دستخط کیے ۔ اس فتویٰ کو عالمی سطح پر بھی کافی پذیرائی ملی کیونکہ اسے امامِ کعبہ اور جامعہ ازہر قاہرہ سے منظوری ملی تھی ۔اس فتویٰ میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات، آئین پاکستان کے اصولوں اور پاکستانی عوام کے اجتماعی فکر کی عکاسی کرتا ہوتاکہ اس کو پائیدار بنیادوں پر عملی جامہ پہنایا جا سکے۔مذکورہ قومی بیانیے کےاہم نکات درج ذیل ہیں ۔
نمبر 1۔ ریاست پاکستان ، اس کے کسی صوبے یا اکائی کے خلاف کوئی جہاد یامسلح جدوجہد حرام اور ناجائز ہے، چاہے اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے بشمول جہاد۔ کوئی فرد یا گروہ پاکستان کی ریاست کے خلاف جنگ (جہاد) کا اعلان نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی شخص پاکستان کی حکومت کے افسران، مسلح افواج کے اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو غیر مسلم قرار دے کر انہیں قتل کرنے کا جواز نہیں دے سکتا۔ ایسے افراد اور اداروں پر حملے کی کوئی بھی توجیح قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق بھی ایسے حملے سنگین جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ریاست کے خلاف طاقت کا استعمال، مسلح مزاحمت، تشدد پھیلانا، دہشت گردی کرنا، اور شریعت کے نفاذ کے نام پر انتہاپسندی کو فروغ دینا سخت طور پر حرام ہے اور یہ "فساد فی الارض" کے زمرے میں آتا ہے۔ایسی کارروائیاں ریاست کے خلاف جرائم کے طور پر شمار ہونگی ۔ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ ایسے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں،۔ جو لوگ پاکستان کے خلاف لڑتے ہیں وہ قانون شکن، باغی اور دہشت گرد ہیں جنہیں قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔
نمبر 2۔ تمام پاکستانی قوم اپنے مسلح افواج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتی ہے جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کو روکنے کے لیے اپنے قانونی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ادارے پاکستانی قوم کا لازمی جزو ہیں۔ ان کے کردار اور فرائض ، جن میں پاکستان کے عوام کی زندگی اور مال کی حفاظت شامل ہے، کے خلاف کوئی بھی فتویٰ یا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔
نمبر 3۔ خودکش بمباری اسلام میں سختی سے حرام ہے۔ ملک کے قانون اور شریعت کے مطابق یہ ایک سنگین جرم ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق خود کش بمبار نہ صرف خود بلکہ وہ لوگ جو نوجوانوں کواس عمل کے لیے ترغیب دیتے ہیں وہ بھی جہنم میں جائیں گے ۔ قرآن کے مطابق ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ خودکش بمباری کو فدائی حملہ کہنے سے اس کا جواز نہیں بنتااور نہ ہی نام بدلنے سے اس کی نوعیت اور نتائج تبدیل ہوتے ہیں۔
نمبر 4۔ تمام پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اور تربیتی اداروں کو شدت پسندی، نفرت، تشدد، انتہاپسندی یا دہشت گردی کو فروغ دینے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ یہ تمام اعمال ملک کے قانون کے مطابق جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ یا اس سے وابستہ فرد، خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی، ان سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
نمبر 5۔ جس طرح مسلم اکثریتی آبادی کو مذہبی آزادی حاصل ہے، ویسے ہی پاکستان میں غیر مسلم اقلیوں کو بھی آئین کے تحت مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ریاست مذہبی اقلیتوں اور ان کے مذہبی و ثقافتی حقوق کو اہمیت دیتی ہے۔ آئین بلا کسی امتیاز سب کو مذہبی حقوق کی ضمانت دیتا ہے ۔ ریاست مذہبی اور غیر مذہبی انتہاپسندی کی تمام اقسام کی مذمت کرتی ہے۔ کسی بھی فرقے کو اپنے نظریات کو طاقت اور تشدد کے ذریعے دوسرے فرقوں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی بھی فرقے یا مذہب کو دوسرے فرقے یا مذہب کی مقدس شخصیات کی توہین کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی فرقہ کسی دوسرے فرقے کو کافر (غیر مسلم) قرار نہیں دے سکتا۔ تکفیر (دوسرے مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دینا) سختی سے ممنوع ہے۔ ایسی کسی بھی خلاف ورزی پر متعلقہ قوانین کے تحت سزا دی جائے گی۔ کسی فرد یا گروہ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی شخص کو مذہبی جرم بشمول توہین مذہب کے جرم میں خود سے سزا دے۔ صرف عدالتیں ایسے ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دیں گی۔ اس طرح کی قانون شکنی اور تشدد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
نمبر 6۔ غیر مذہبی مسلح تنظیموں کی طرف سے قومیت ، زبان، رنگ، عقیدہ، نسلی امتیاز، علاقائیت وغیرہ کی بنیاد پر کی جانے والی مسلح مزاحمت اور دہشت گردی مکمل طور پر غیر قانونی ہیں ، اس لیے سختی سے ممنوع ہیں ۔ ریاست، صوبے یا یونٹ کے خلاف مسلح مزاحمت ، چاہے وہ کسی بھی نام یا نظریے کی بنیاد پر ہو، بغاوت اور سرکشی کے زمرے میں آتی ہے۔ ایسے جرائم پر قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ پاکستان کی علاقائی سالمیت کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے گا اور باغیوں اور سرکشوں کو غداری اور دیگر سنگین جرائم کے لیے سزا ئیں دی جائیں گی۔
نمبر 7۔ مذہبی اور غیر مذہبی دہشت گرد گروہوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بغیر کسی امتیاز کے آپریشنز کیے جائیں گے تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ نیشنل ایکشن پلان کو تمام متعلقہ اداروں کی منشاکے مطابق نافذ کیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تمام ضروری وسائل فراہم کر کے مضبوط کیا جائے گا۔ ان اداروں کو جدید انٹیلی جنس جمع کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جوابی کاروائیوں کی تربیت دی جائے گی۔ انہیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پائیدار اور مستقل بنیادوں پر تیار کیا جائے گا۔ امن اور سلامتی میں سرمایہ کاری دراصل ملک کی معیشت میں بالواسطہ سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ امن اقتصادی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بنے گا۔
نمبر 8۔ معاشرےمیں انتہاپسندی کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ انتہاپسندانہ پراپیگنڈےپر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے قابو پایا جائے گاجسمانی اور سائبر حیثیتوں میں سرگرم انتہاپسند عناصر، بشمول سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ جو انتہاپسندی کو پھیلانے میں ملوث ہیں، کو روکا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ انتہاپسندانہ نظریات اور آن لائن منافرت کامؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جائے گا۔ جسمانی اور سائبر حیثیتوں میں تمام قسم کی انتہاپسندی ،جن میں مذہبی، لسانی، نسلی، علیحدگی پسند یا علاقائی شامل ہیں ، کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ قومی اداروں کو بدنام کرنے والی پراپیگنڈہ مہم کا مقابلہ کیا جائے گا اور قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ بیانیوں کی جنگ کو ریاست تمام ممکنہ وسائل استعمال کرتے ہوئےنہ صرف اس کے خلاف لڑے گی بلکہ یہ جنگ جیتے گی بھی۔ پاکستان کے قومی بیانیے کو مادی اور سائبر حیثیتوں میں فروغ دیا جائے گا اور اس کی ترویج بھی کی جائے گی۔ اس حوالے سے انتہاپسندی کے خلاف کام کرنے والے متعلقہ قومی اداروں کی جانب سے ایک جامع حکمت عملی تیار کر کے نافذ کی جائے گی۔ مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں گے۔
نمبر 9۔لاؤڈ اسپیکر اور اس طرح کے دوسرے آواز کے آلات کے غلط استعمال کی مؤثر نگرانی اور چیکنگ کی جائے گی۔ نفرت انگیز تقاریر اور دیگر خلاف ورزیوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر کے سزا دلوائی جائیں گی۔ ملک کے قانون کے تحت تمام قسم کے مذہبی مباحثے (مناظرے) سختی سے ممنوع ہیں۔ نفرت اور عدم برداشت پھیلانے والے مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے مضبوط استغاثہ کو یقینی بنایا جائے گا۔
نمبر 10۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مذکورہ قومی بیانیہ اب ایک مستقل قومی پالیسی بن چکا ہے۔ اس پالیسی کے تحت معاشرے سے تمام قسم کی دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ پاکستان کو ایک مکمل طور پر پرامن ملک بنایا جائے گا جہاں اس کے شہری کسی بھی قسم کے خوف کے بغیر اپنے زندگیوں کو امن سے گزاریں گے ۔
نمبر 11۔ پاکستانی طرزِ زندگی کو تحفظ اور فروغ دیا جائے گا کیونکہ یہ سخت محنت، مہمان نوازی، خیرات، رواداری، تنوع اور خوشی کے حصول کے پاکستانی اقدار پر مبنی ہے۔ پاکستانی قوم اللہ سے ڈرتی ہےاور وہ اپنی سخاوت اور وسیع قلبی کے لیے مشہور ہے۔ قوم کے بانی، قائداعظم محمد علی جناح نے قوم کو محنت ، محنت اور محنت کرنے کی نصیحت کی تھی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مزدور اللہ کا دوست ہے۔ مذکورہ بالانکات کی روشنی میں، پاکستانی قوم خوشی کے حصول کے لیے محنت کرے گی۔ غربت، ناخواندگی، تشدد، دہشت گردی اور انتہاپسندی کو معاشرے کے تمام طبقات کی مشترکہ کوششوں سے شکست دی جائے گی۔ قوم 'تعلیم سب کے لیے' پر توجہ مرکوز کرے گی تاکہ مفید شہری پیدا کیے جا سکیں۔ عالمی سطح پر امن، رواداری، تعلیم اور ترقی پاکستانی شناخت کا نشان بنیں گے۔
تبصرہ
دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مذکورہ قومی بیانیہ ہماری ریاست کا نظریاتی موقف بھی ہے ۔ اس کو تشکیل دینے میں پاکستان کو کئی سال لگے ۔ اس سے قبل ان سیکیورٹی چیلینجز سے نمٹنے کے لیے کئی ایکٹ، قوانین اور پالیسییاں بنائی گئی جن میں اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997، نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی ایکٹ 2013، نیشنل ایکشن پلان 2014،وغیرہ قابل ذکر ہیں، لیکن جو پذیرائی اس قومی بیانیہ کو ملی اس سے پاکستان کی اہمیت نہ صرف علاقائی سطح پر بڑھی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہوا۔
اس قومی بیانیہ کی حیثیت اور وقعت بھی 1973 کےمتفقہ آئین جیسی ہے جس پر تمام سوچ و فکر کے حامل گروہوں نے اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ بیانیہ امن، رواداری، یکجہتی اور تشدد کے انکار جیسے اقدار کو اجاگر کرتا ہے، چاہے وہ مذہب کے نام پر ہوں یا سیاست کے نام پر یا پھر نظریے کے نام پر ۔ اس کا بنیادی مقصد ایک پر امن، محفوظ اور مستحکم پاکستانی معاشرہ قائم کرنا ہے۔ الغرض ہم اسے ایک بہترین حکمت عملی بھی کہہ سکتے ہیں جو پاکستان کو درپیش نظریاتی، سیاسی، سماجی اور سیکیورٹی چیلینجز کو حل کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے ۔یاد رہے کہ یہ ریاست اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہے جس کی پابندی کرنا سب کے لیے ضروری ہے اور اس کی خلاف ورزی مداخلت قانون کے طور پر سمجھی جائےگی۔
(مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں۔ )
تبصرہ لکھیے