عوف ابن مالک الاشجعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے،اور عرض کی،
" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،میرا بیٹا مالک آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک ہوا۔ سب لوگ تو واپس آگئے،مگر میرا بیٹا مالک اب تک واپس نہیں آیا ۔آقا فرمائیےمیں کیا کروں؟(انتظارِ کروں یا ماتم)"
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يا عوف، أكثر أنت وزوجك من قول: لا حول ولا قوة إلا بالله
عوف! آپ اور آپ کی اہلیہ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ" کا بکثرت ذکر کیا کریں ۔
سیدنا عوف رض گھر گئے اور بیوی کو بتایا ،جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
خاتون نے کسی بحث،سوال ،اعتراض اور شک و شبہ کے بغیر یہ کہہ کر ۔لقد صدق رسول الله عليه الصلاة والسلام . میاں کو ساتھ۔ بٹھا کر ۔۔لا حول ولا قوۃ الا باللہکا ذکر و ورد شروع کردیا۔
دن گذرارات آئی کہ دروازہ کھٹکا۔عوف رض نے دروازہ کھولا،تودیکھا کہ بیٹا مالک زندہ وسلامت سامنے کھڑا ہے اور اس کے پیچھے بھیڑ بکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے،جسے وہ ہانکے لائے ہیں۔حیرت سے پوچھنے لگےبیٹا۔۔ماھذا۔۔؟
یہ سب کیا ہے؟
مالک فرمانے لگے۔۔بابا
إن القوم قد أخذوني وقيّدوني بالحديد وشدّوا وثاقي، فلما جاء الليل حاولت الهروب فلم أستطع لضيق الحديد وثقله في يدي وقدمي، وفجأة شعرت بحلقات الحديد تتّسع شيئًا فشيئًا حتى أخرجت منها يديّ وقدميّ، وجئت إليكم بغنائم المشركين هذه
دشمنوں نے مجھے پکڑ کر قید کرلیا تھا،اور لوہے کی بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑ دیا تھا ۔رات آئی تو میں نے آزاد ہونے اور قید سے بھاگنے کی بھرپور کوشش کی،مگر اپنے ہاتھوں میں لوہے کی زنجیر کے بھاری حلقوں اور پاؤں میں مضبوط بیڑیوں کے سبب میں خود کو آزاد نہ کراسکا۔ لیکن اچانک کیا ہوا کہ میں نے محسوس کیا کہ لوہے کے کڑے آہستہ آہستہ پھیل کر کشادہ اور بڑے ہو رہے ہیں ۔یہاں تک کہ میں نے ان زنجیروں اور بیڑیوں سے اپنے جسم کو آزاد کروالیا اور دشمن کا یہ مال غنیمت لے بھاگا اور آپ کے پاس آپہنچا۔
حضرت عوف رض نے بڑی حیرانی سے پوچھا۔۔
بُنيّ، إن المسافة بيننا وبين العدو طويلة، فكيف قطعتها في ليلة واحدة؟!
بیٹا۔۔ہمارے اور دشمن کے درمیان ایک طویل مسافت واقع ہے۔یہ تو بتاو کہ اسے ایک رات میں طے کرنا اور اتنا طویل سفر آخر کیسے ممکن ہوا۔۔؟
حضرت مالک بن عوف رض بولے۔
يا أبت، والله عندما خرجت من السلاسل شعرت وكأن الملائكة تحملني على جناحيها.
بابا۔۔ جب میں نے خود کو زنجیروں اور بیڑیوں سے آزاد کروا لیا تو خدا کی قسم مجھے یوں لگا کہ ملائکہ نے مجھے اپنے پروں پر سوار کرلیا ہے،(اور مجھے نہایت تیزی سے سفر طے کرا رہے ہیں اور منزل تک اڑائے لے جا رہے ہیں)
یہ سن کر عوف رض بے اختیار پکار اٹھے۔سبحان اللہ العظیم اور دوڑے بارگاہ رسالت کی طرف۔تاکہ یہ ماجرا اور معجزہ سرکار کی خدمت میں سنائیں . مگر وہاں تو عوف رض سے بھی پہلے یہ خبر پہنچ چکی تھی، کہ معجزوں کے صدور کی بھی بلاریب یہی بارگاہ تھی. اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے۔
حضور رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔لو بھئی عوف۔ خوش ہوجاؤ۔۔اللہ نے تو تمہاری شان میں قرآن ہی نازل کردیا ہے ۔
أبشر يا عوف، فقد أنزل الله في شأنك قرآنًا:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا *وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا
(اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔
اور اسے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے سو وہی اس کو کافی ہے، بے شک اللہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک پیمائش مقرر کر دی ہے۔)
آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے مذید فرمایا ۔
اعرف ان لا حول ولا قوة الا بالله كنز من تحت عرش الرحمن وهي دواء من ٩٩ داء
یہ کلمات "لا حول ولا قوة الا بالله "اللہ کے عرش کے نیچے ایک بڑا خزانہ ہے،اور ۹۹ بیماریوں سے شفاء کا موجب ہیں۔کروڑوں درود و سلام آقائے رحمت دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور اصحاب صدق و صفا پر۔۔جنہوں نے سمع وطاعت کا بے مثل طرز عمل پیش کیا۔
تبصرہ لکھیے