ہوم << افسانہ : دوزخی - ڈاکٹر ندیم جعفر

افسانہ : دوزخی - ڈاکٹر ندیم جعفر

اندرون بھاٹی گیٹ چوہدری کاگھرتھا ، خالص لاہوری طرزتعمیر۔۔۔ جابجالکڑی کااستعمال، حویلی نمادومنزلہ گھر ۔ چوہدری کےساتھ اس کی بہن بختاں رہتی تھی جسےجوانی میں ہی اولادنہ ہونےکےسبب طلاق ہوگئی تھی، جبکہ دوسری بہن گلشن راوی اپنےدوبچوں کےہمراہ ہنسی خوشی رہ رہی تھی۔

بوٹا محلےمیں بہت مشہورتھا، نیک بھی تھا. عیدمیلاد ہو ،داتاصاحب کاعرس ہو یامحرم ہرموقع پہ حاضرہوتا، سبیلیں لگاتا، مسجدمیں پانی کاانتظام بھی بوٹے نےہی کرایاتھا. امام صاحب کےکئی مسائل بھی اکثروہی حل کرتا، مسجدکمیٹی کا رکن جوتھا بلکہ اہم ترین رکن کہیں یاروح رواں۔

بوٹےسےبیوی نےکہا، چوہدری کیوں نایہ حویلی بیچ کرہم بیرون شہرکوئی اچھاسانیابناہوامکان خریدلیں. اندرون شہرکی گلیاں بھی بہت تنگ ہیں، بچیوں والےہیں، آنےجانےوالے گاڑیوں پہ آتے ہیں، حویلی تک گاڑی توکیارکشہ بھی نہیں آسکتا. چوہدری کوبیوی کی تجویز توبہت پسندآئی لیکن محلہ چھوڑنے کا ایک دکھ بھی جاگ اٹھا کہ اتنی عزت ہے، سب اپنےجاننےوالےہیں، نئی جگہ ہوگی توجانے کیا ماحول بنے. عجیب وسوسوں نےبوٹے کوگھیرلیا لیکن آخرش بیوی کی بات مان لی، اورکہنے لگا بھلیےلوکے ایک مکان لیں گے، حج بھی کرآؤں گا، فریضہ اداہوجائے گا ، مدینہ دیکھ آؤں گا، کربلا اورنجف توہوآیاہوں، مدینہ جانےکی حسرت باقی ہے ۔ بیوی نےبھلاکیاروکناتھا وہ بھی پنج نمازن اورپکی مذہبی عورت تھی ۔

جس روز چوہدری نےمحلہ چھوڑناتھا، لوگ تولوگ چرندپرند، آس پاس کی حویلیوں کی چھتوں پہ غٹرغوں کرتےکبوتر ،پوراماحول ہی اداس تھا . بوٹے کی بہن بختاں توروروکےسب محلےوالیوں سےگلےمل رہی تھی. آخرباپ کاگھرتھا، اپنے لوگ تھے، بچپن سےساتھ پلےبڑھے، محلہ کیا تھا ایک گھرساتھا. بختاں یوں بھی ہجرتوں سے سہمی ہوئی تھی لیکن شائدمجبوربھی تھی، بھائی جوہوا ۔ بہنیں بھی نا بالکل ماؤں جیسی ہوتی ہیں، بھائیوں پہ جان وارتی ہیں، چاہےوہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں ۔

نئی جگہ بختاں کادل نہ لگتاتوپرانےمحلے آجاتی، کبھی گلشن راوی بہن کےہاں چلی جاتی، اوردنوں ادھرہی رہتی ۔ بوٹےکےگھر بڑی رونق تھی، بہنیں آئی ہوئی تھیں، پرانے محلے والے، دوست یار،مولوی صاحب سبھی۔ آخربوٹا حج کوجوجارہاتھاتھا، ختم دلوایاگیا ، نیاز بٹی، اوربوٹے کوائیرپورٹ تک سب کلمے پڑھتے ہوئے چھوڑنے گئے. بوٹابھی بہت خوش تھا. آخر سرکاری حج سکیم میں اس کےنام قرعہ نکل آیاتھا. مولوی صاحب بھی کہ رہے تھے کہ بس جی جس کا بلاوا آجائے، اوریوں آخربوٹا حج کوروانہ ہوگیا ۔

بوٹا جس دن واپس آیا، تب سے وہ اب حاجی بوٹاتھا، مزیدمعزز، پرانے نئے محلےوالےسبھی رشک سےبوٹے کودیکھتے. واہ سبحان اللہ کیاقسمت پائی. ایک حسرت تھی حج کی وہ بھی پوری ہوگئی. گھربھی نیا بن گیا، گاڑی بھی لےلی ۔ مولوی کہ رہاتھاکہ بس جی اللہ کی خاص رحمت ہے. چوہدری پہ، بندہ بھی نیک ہے، ہراسلامی تہوارپہ بڑھ چڑھ کےحصہ لیتاتھا. کوئی اداپسند آگئی اس کی کرماں والیوں ۔

جانے کیاہواکہ بوٹاحج سےواپس آیاتوبیماررہنےلگا. بہت علاج کرایا مگر کھانسی نہ رکی ۔ دم دوا تعویز سب کرادیکھے، لیکن کوئی فرق نہ پڑا . ایک رات حاجی بوٹا دنیا سےمنہ موڑگیا. مولوی صاحب محلےوالےسبھی کہہ رہے تھے کیاعظیم مقدروں والاہے،حج سےلوٹاتو دنیامیں چنددن ہی رہا، دنیاداری کی غلاظتوں سے بچ گیا ہے چوہدری ۔ بڑے نصیبوں والاہے ۔

حاجی بوٹے کاسوم تھا. گھرمیں اورگھرکےباہرلوگوں کاتانتابندھاہواتھا. مردان خانےمیں مولوی صاحب تقریر کرکے سب کوبوٹے کی پرانی محلے میں خدمات بتارہے تھے اورکہہ رہے تھے ولی تھا بوٹا ۔

زنان خانےمیں بھی کھاناتقسیم ہورہاتھا. بوٹے کی گلشن راوی والی بہن امن بڑی بہن بختاں سے کان میں کہہ رہی تھی آپاتعلیم نےبھی بچوں کادماغ خراب کررکھاہے، میرے بچے رات کہہ رہے تھے اماں ہماراماموں بوٹا پکادوزخی ہے.پہلے ناناکاپلاٹ بیچا توہماراحق کھاگیا، اب حویلی بیچی توبھی آپ کاحق ہماراحق کھاگیاہے، ڈکارتک نہ لیا ۔۔۔۔۔ بختاں آہستہ سےبولی " مرجانڑے کہندےتےٹھیک ای نیں، میں تے بےاولاد سی، اپناحق معاف کردیاں گی، تیری تے نسل چل رئی اے، توں تے معاف وی نئیں کرسگدی."

Comments

Click here to post a comment