(تیسرا پارہ: آیت 261، 275، 276 اور 282 کی روشنی میں)
سورہ البقرہ کی ان چار آیات میں دولت کے حصول، اس کے خرچ، صدقہ وخیرات، سود، قرض، اور مالی لین دین کے معاملات میں مرد و عورت کی گواہی سے متعلق چار رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں جو کہ ایک جامع اور منصفانہ مالیاتی ڈھانچے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہ اصول درج ذیل ہیں:
1. سود کو ختم کرنے کا حکم دیا تاکہ معاشی استحصال کا دروازہ بند ہو جائے.
2. صدقہ و خیرات کی ترغیب دی تاکہ دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے.
3. قرض کے لین دین میں شفافیت پیدا کرنے لیے تحریری معاہدے کو لازمی قرار دیا تاکہ عدالتی تنازعات کو کم کیا جا سکے.
4. گواہی کے لیے عورتوں کو رعایت دی تاکہ انھیں ممکنہ خطرات سے بچایا جا سکے.
یہ چار اصول کسی بھی معاشی و سماجی نظام کی اصلاح کے ضامن ہیں.
چنانچہ سود سے متعلق ارشاد باری ہے:
"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔... اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔" (البقرہ: 275،276)
1: سودی معیشت کے خاتمے کا اصول:
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ سودی معاملہ وقتی طور پر کسی فرد یا ادارے کو فائدہ دے سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر معیشت میں بگاڑ پیدا کرتا ہے، جبکہ صدقہ و خیرات دولت کی گردش کو یقینی بنا کر معیشت کو متحرک رکھتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے سودی قرضوں کے ذریعے پاکستان جیسی کمزور معیشتوں کو غلام بنا چکے ہیں.
2: دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے صدقہ خیرات کا حکم:
"جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیاں اگاتا ہے اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں۔" (البقرہ: 261)
یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ضائع نہیں ہوتا بلکہ کئی گنا بڑھ کر واپس آتا ہے۔ جدید اقتصادی اصول بھی یہی کہتے ہیں کہ جب دولت گردش میں آتی ہے تو معیشت ترقی کرتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زکوٰۃ، صدقہ، اور خیرات کے ذریعے ایک ایسا نظام قائم کیا گیا ہے جس میں دولت چند افراد کے پاس مرتکز ہونے کے بجائے معاشرے میں گردش کرتی رہتی ہے، اور ہر طبقہ اس سے مستفید ہوتا ہے۔
3: قرض اور لین دین میں شفافیت: اسلام نے قرض کے لین دین کو بے حد شفاف اور دستاویزی بنانے پر زور دیا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں سب سے طویل آیت اسی موضوع پر نازل ہوئی:
"اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لیے آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو..." (البقرہ: 282)
یہ آیت کسی بھی مالیاتی معاہدے کے لیے کچھ بنیادی اصول فراہم کرتی ہے:
1. طرفین کے مابین مالی معاہدہ تحریری طور پر درج ہونا چاہیے تاکہ بعد میں کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔
2. دو گواہوں کی موجودگی میں معاہدے پر دستخط کیے جائیں تاکہ شفافیت برقرار رہے۔
3. قرض دینے والا اور لینے والا، دونوں معاہدے کی شرائط کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
4: عورت کو گواہی میں رعایت : اسی آیت میں گواہی کا یہ ضابطہ بیان کیا گیا کہ:
"اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔" (البقرہ: 282)
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو کسی مالی معاہدے میں گواہ بننے سے منع نہیں کیا بلکہ اس کے لیے آسانی اور تحفظ کا پہلو رکھا ہے۔ فیمنسٹ حلقوں کیجانب سے جو یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ عورت کی گواہی کو مرد کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عورت کی سہولت اور تحفظ کے لیے ہے، کیونکہ گواہی دینا ایک مشکل عمل ہے جس میں فریقِ مخالف کی طرف سے دباؤ، دھمکیاں اور عدالتی جرح کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے عورت کو عدالتی جھمیلوں میں پڑنے سے بچانے کے لیے نرمی دی کہ اگر کوئی عورت گواہ بنے تو دوسری عورت اس کا ساتھ دے، تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔
دوسری طرف مرد کے لیے گواہی دینے کو فرض قرار دیا گیا ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں، ارشاد باری ہے:
"اور گواہی کو نہ چھپاؤ، اور جو اسے چھپائے گا، اس کا دل گناہ گار ہوگا۔" (البقرہ: 283)
یہاں مرد کو پابند کیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی واقعے کا گواہ ہو تو اسے ہر حال میں عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔ عورت کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں، بلکہ اگر وہ چاہے تو گواہی دینے سے انکار کر سکتی ہے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بات کو بنیاد بنا کر مردانہ حقوق کے علمبردار سامنے آتے کہ مرد کو یہاں کیوں مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ عورتوں کو چھوٹ دی جا رہی ہے؟ کیونکہ عدالت میں گواہی دینا کوئی اعزاز کی بات تو ہے نہیں کہ جو مرد کو مل گیا اور عورت کو کمتر سمجھ کر محروم کر دیا گیا، بلکہ مرد کو مشکل میں ڈال دیا گیا اور اسے پھر پابند بھی کر دیا گیا کہ پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں ہے. ورنہ مساوات کا تقاضا تو یہ تھا کہ مردوں کو بھی اختیار ملتا کہ وہ گواہی دیں یا نہ دیں۔ اس طرح اسلام نے عورت کو عدالت کے چکروں اور ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھا.
الغرض، مذکورہ بالا چار اصول کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ وہی اصول ہیں جو آج بھی کسی بھی کامیاب معیشت کے لیے ناگزیر ہیں، آج کی دنیا اگر ان رہنما اصولوں کو اپنائے تو معاشی بدحالی، قرضوں کے بحران، اور مالی ناہمواری جیسے مسائل کا حل ممکن ہے۔
تبصرہ لکھیے