ہوم << مشرق یا مغرب؟ زندگی کے GPS کا قرآنی تصور - عاطف ہاشمی

مشرق یا مغرب؟ زندگی کے GPS کا قرآنی تصور - عاطف ہاشمی

(دوسرا پارہ: آیت 142 اور 177 کی روشنی میں)
زندگی کے سفر میں کامیابی کے لیے دو بنیادی عناصر کا ہونا ضروری ہوتا ہے: صحیح سمت اور واضح مقصد۔ اگر سمت درست ہو لیکن مقصد پر توجہ نہ دی جائے، تو محض صحیح راستے پر چلنا کامیابی کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر مقصد بڑا ہو مگر سمت درست نہ ہو تو تمام تر محنت ضائع ہو سکتی ہے. اسی اصول کے تحت قرآن کی پہلی سورت میں ہی قبلے اور سمت کی تعیین کا ذکر آتا ہے، دوسرے پارے کی پہلی آیت میں ہے کہ جب مسلمانوں کو بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا گیا، تو کچھ نادان اور کم فہم لوگوں نے اس پر اعتراض کیا:
"سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ"(البقرہ: 142) ترجمہ:"سفیہ و نادان لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اس قبلہ سے کس نے ہٹا دیا جس کی طرف یہ رخ کر رہے تھے؟ کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب کا اللہ ہی تو مالک ہے، وہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت دے دیتا ہے۔"
یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ صحیح راہ کا انحصار کسی مخصوص جغرافیائی سمت پر نہیں۔ نیکی، ہدایت، اور سچائی کسی خاص قوم، خطے یا تہذیب کی جاگیر نہیں، بلکہ حق اور عدل پر مبنی ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے لوگ مغربی دنیا کی ہر چیز کو ترقی، جدیدیت اور سچائی کا معیار سمجھ کر اسے اندھا دھند قبول کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو مشرق کی ہر چیز کو مقدس سمجھتے ہیں اور ہر نئی سوچ کو مغربی سازش اور مشرقی روایات کے منافی قرار دیتے ہیں۔ قرآن اس شدت پسندانہ سوچ کو مسترد کرتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ کوئی چیز اس وجہ سے اچھی نہیں کہ وہ مغربی ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس وجہ سے بری ہے کہ وہ مشرقی ہے۔ سچائی کا معیار اس کی اصل حقیقت، اس کی معقولیت، اور اس کے اخلاقی اثرات پر ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے جغرافیائی یا تہذیبی پس منظر پر۔ یہی نکتہ قرآن ہمیں سمجھانا چاہتا ہے کہ مشرق و مغرب دونوں اللہ کے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ کیا ہے اور اس پر کون چلتا ہے؟

اس وضاحت کے بعد آگے چل کر نیکی کی اصل حقیقت یوں بیان کی گئی:
"لَّيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قبل الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَـٰئِكَةِ وَالْكِتَـٰبِ وَالنَّبِيِّـۧنَ وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَـٰهَدُوا۟ وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِ ۗ أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ صَدَقُوا۟ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ" (البقرہ: 177) ترجمہ: "نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کرلو (مسئلہ صرف قبلہ کا نہیں ہے) نیکی تو اس کی ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور انبیاء پر ایمان لائے، اور مال کو اللہ کی محبت میں، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دے، اور غلاموں (اور قیدیوں) کی گردنیں آزاد کرانے کے لیے صرف کرے، اور نماز ٹھیک سے پڑھے، اور زکوۃ دے، (اور نیک وہ لوگ ہیں) جو اپنے عہد اور وعدہ کو پورا کرتے ہیں، جب معاہدہ کرتے ہیں، اور سخت جانی اور مالی آزمائشوں اور تکالیف میں اور جنگوں کے وقت میں صبر سے کام لیتے ہیں، وہی لوگ سچے (مسلمان) ہیں اور وہی متقی و پرہیزگار ہیں۔"

یہ آیت نیکی کی جامع تعریف بیان کرتی ہے اور واضح کرتی ہے کہ نیکی محض کسی مخصوص سمت کی طرف رخ کرنے کا نام نہیں، بلکہ ایمان، اخلاق، اور عملی جدوجہد کا مجموعہ ہے۔ عبادت محض ظاہری اعمال تک محدود نہیں، بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو عقیدے، اخلاق اور اعمال کو محیط ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی تعلیمی ادارے میں طلبہ کو ایک موقع پر بروقت کالج آنے کی تاکید کی جائے، اور کسی دوسرے موقع پر یہ سمجھایا جائے کہ محض حاضری کافی نہیں، بلکہ اصل مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے۔ جو طالب علم کلاس میں آ کر دھیان نہیں دیتا اور محنت نہیں کرتا، اس کی حاضری بے معنی ہے۔ اب کوئی احمق طالب علم ہی ہوگا جو اس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ پرنسپل صاحب نے کہہ دیا کہ کالج آنا ضروری نہیں، بس محنت کرنی چاہیے.

اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں قبلہ متعین کر کے ایک سمت مقرر کر دی، لیکن آگے چل کر وضاحت فرما دی کہ اصل نیکی محض قبلہ رخ ہونے میں نہیں، بلکہ ایمان، اعمالِ صالحہ اور نیک کرداری میں ہے۔ اس آیت میں نیکی کو چار بنیادی اصولوں میں تقسیم کیا گیا:
1. ایمان کی مضبوطی:
نیکی کی بنیاد عقیدہ ہے۔ اللہ پر ایمان، آخرت پر یقین، اور وحی کے نظام پر بھروسہ انسان کی فکری اور روحانی اصلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔ (مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَـٰئِكَةِ وَالْكِتَـٰبِ وَالنَّبِيِّـۧنَ)

2. سماجی بھلائی:
نیکی کا ایک بڑا حصہ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک ہے، چاہے وہ رشتہ دار ہوں، یتیم ہوں، مسکین ہوں یا دیگر ضرورت مند افراد۔ اسی ضمن میں مسافروں کی مدد اور غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب بھی گئی،(وَءَاتَى ٱلْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِۦ ذَوِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَـٰمَىٰ وَٱلْمَسَـٰكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَٱلسَّآئِلِينَ وَفِى ٱلرِّقَابِ)

3. ذاتی کردار:
نماز اور زکوٰۃ جیسے اعمال نہ صرف اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کرتے ہیں، بلکہ انسان کو منظم، بااصول اور خوددار بھی بناتے ہیں۔ (وَأَقَامَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَى ٱلزَّكَوٰةَ)

4. عزم اور صبر:
زندگی آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن مشکل حالات میں ثابت قدم رہنا ہی حقیقی نیکی کی علامت ہے. (وَٱلصَّـٰبِرِينَ فِى ٱلْبَأْسَآءِ وَٱلضَّرَّآءِ وَحِينَ ٱلْبَأْسِ)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی میں نہ صرف صحیح سمت اختیار کرنا ضروری ہے، بلکہ اس کے ساتھ اصل مقصد پر نظر رکھنا بھی لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے نیکی کا ایک جامع تصور دیا، جو ظاہری اور باطنی، روحانی اور عملی، فردی اور اجتماعی ہر پہلو کا احاطہ کرتا ہے۔ لہٰذا، کامیابی تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی سمت کو درست رکھنے کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف بھی سنجیدگی سے سفر کریں۔ یہی حقیقی نیکی اور تقویٰ کی پہچان ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں نیکی کو صرف کسی ظاہری رسم تک محدود نہیں رکھا گیا، بلکہ ایک مکمل طرزِ حیات کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں سمت اور مقصد کا امتزاج ہی حقیقی کامیابی کی کنجی ہے۔ یہی وہ قرآنی پیغام ہے جو مشرق و مغرب کی کشمکش سے بالاتر ہو کر سچائی کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ جس طرح ایک GPS ہمیں صرف سمت نہیں بتاتا بلکہ ہمیں منزل تک پہنچنے کا پورا راستہ سمجھاتا ہے، بالکل اسی طرح قرآن ہمیں محض مشرق یا مغرب کا رخ اختیار کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں سچائی، انصاف، اور مقصدیت کے ساتھ جینے کا مکمل راستہ دکھاتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو ہمیں زندگی کے ہر فیصلے میں رہنمائی دے سکتی ہے اور ہمیں ایک کامیاب، متوازن اور حقیقت پسندانہ راستے پر ڈال سکتی ہے۔

Comments

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment