ہوم << جویانِ حق یا تذبذب کے قیدی؟ اگناسٹک ذہنیت کی قرآنی تمثیل - عاطف ہاشمی

جویانِ حق یا تذبذب کے قیدی؟ اگناسٹک ذہنیت کی قرآنی تمثیل - عاطف ہاشمی

پہلا پارہ: آیات 17 تا 20
کبھی آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اپنے شریکِ حیات پر بے جا شک کرتا ہے؟ اس کی حرکات وسکنات پر نظر رکھتا ہے اور ہر معاملے کو مشکوک نگاہ سے دیکھتا ہے؟ اگر پارٹنر مسکرا کر بات کرے تو اسے لگتا ہے کہ یقیناً کوئی بات چھپا رہا ہے، اور اگر خاموش ہو تو شک مزید بڑھ جاتا ہے کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ وہ ہر معمولی بات میں کوئی نہ کوئی پوشیدہ مفہوم نکالتا ہے، اور جتنی وضاحت دی جائے، اس کا شک اتنا ہی گہرا ہوتا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ صرف پارٹنر کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے بلکہ خود بھی بے سکونی اور اضطراب کی کیفیت میں رہتا ہے۔
رشتوں میں اعتماد کی بجائے شک کرنے والوں جیسی کیفیت ہی ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو عقیدے میں بھی یقین کی بجائے تذبذب کی راہ اختیار کرتے ہیں، جو ہر چیز پر سوال اٹھاتے ہیں، مگر کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان کے سامنے دلائل آتے ہیں، مگر وہ ہر جواب پر ایک نیا سوال کھڑا کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ سچائی کو جاننے کے بجائے ہمیشہ شک اور تذبذب میں ہی جینا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو قرآن کریم میں سورہ بقرہ کے آغاز میں (آیات 17 تا 20) دو مثالوں سے واضح کیا گیا ہے جو کہ دو طرح کے شک میں مبتلا لوگوں کی عکاسی کرتی ہیں:
1: وہ لوگ جو روشنی دیکھ کر بھی اسے ترک کر دیتے ہیں۔
2: وہ لوگ جو وقتی طور پر روشنی قبول کرتے ہیں، مگر جیسے ہی کوئی چیلنج آتا ہے، پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
(17) مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ۔ (ترجمہ: ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پھر جب اس نے آس پاس کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ نہیں دیکھتے۔)
(18) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ۔ (ترجمہ: یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں، سو یہ (ہدایت کی طرف) نہیں لوٹیں گے۔)
(19) أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكافِرِينَ۔ (ترجمہ: یا (ان کی مثال) آسمان سے برسنے والی بارش کی سی ہے، جس میں اندھیریاں اور گرج اور بجلی ہے، وہ کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔)
(20) يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ (ترجمہ: قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی اچک لے، جب کچھ روشنی ہوتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہے تو ان کی سماعت اور بصارت سلب کر لے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔)

🔹 پہلی مثال: روشنی دیکھ کر بھی اندھیرا پسند کرنے والے:
یہ مثال ایسے شخص کی ہے جو بالکل اندھیرے میں تھا، پھر اس نے آگ جلائی تو ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی۔ لیکن اچانک وہ روشنی بجھ گئی اور وہ دوبارہ اندھیرے میں چلا گیا۔ اب اس کے لیے نہ کچھ دیکھنا ممکن ہے، نہ راستہ تلاش کرنا، نہ کوئی فیصلہ لینا۔ یہ اُن لوگوں کی حالت ہے جو سچائی کے قریب پہنچ کر بھی اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔
بہت سے لوگ دین، خدا اور وحی کے متعلق غور و فکر کرتے ہیں، حقائق ان کے سامنے آتے ہیں، مگر وہ اپنی ضد، خواہشات یا تکبر کی وجہ سے روشنی کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جو بعض اگناسٹک (Agnostic) افراد میں پایا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
"ہو سکتا ہے خدا ہو، مگر میں یقین سے نہیں کہہ سکتا. "
"ہو سکتا ہے قرآن سچ ہو، مگر میں مکمل طور پر قبول نہیں کر سکتا. "
یہ لوگ حقائق کو دیکھتے ہیں، مگر ان پر یقین نہیں لاتے، بالکل اسی طرح جیسے روشنی دیکھنے کے بعد بھی آنکھیں بند کر لی جائیں۔ قرآن ایسے لوگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ بہرے، گونگے اور اندھے بن چکے ہیں، اور اب یہ واپس پلٹنے والے نہیں۔
یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص روشنی میں رہ کر بھی آنکھیں بند کر لے، کانوں میں انگلیاں ڈال لے اور اپنی زبان کو خاموش کر دے۔ حقیقت موجود ہے، مگر وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

🔹 دوسری مثال: وقتی طور پر روشنی قبول کرنے والے مگر شک میں رہنے والے:
یہ ایک اور طرح کے شکی ذہن کی تصویر ہے۔ ایسے لوگ حق کی روشنی کو قبول تو کر لیتے ہیں، مگر جیسے ہی کوئی چیلنج یا آزمائش آتی ہے، وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ وہی کیفیت ہے جس میں کوئی شخص حق کو قبول کرتا ہے، مگر جیسے ہی اسے کوئی نیا فکری طوفان گھیرتا ہے، وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
یہی حال اگناسٹک ذہنیت رکھنے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ یہ لوگ اکثر سوالات اٹھاتے ہیں، مگر ان کا مقصد جوابات تلاش کرنا نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کو بھی شک میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگناسٹک کے اعتراضات کا جواب نہیں دیا جاتا، کیونکہ وہ جواب سننے کے لیے اعتراضات اٹھاتا ہی نہیں ہے۔ وہ سوالات اس لیے نہیں کرتا کہ سچائی معلوم کرے، بلکہ اس لیے کہ اپنے شک کو مزید پھیلایا جا سکے، اور جہاں اسے جوابات ملنے کا امکان ہوتا ہے، وہ صمٌ بکمٌ عمیٌ ہو جاتا ہے، یعنی بہرا، گونگا اور اندھا بن جاتا ہے۔ آج کی سوشل میڈیا کی دنیا میں اس رویے کی جدید شکل کسی کو "ان فالو"، "میوٹ" یا "بلاک" کرنا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو روشنی دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جوابات ملنے کے خوف سے خود کو بحث سے نکال لیتے ہیں، اور ہمیشہ شک میں رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں.

یہ دو قسم کے شکی ذہن آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ قرآن ایسے لوگوں کو غور و فکر کی دعوت ضرور دیتا ہے، مگر فیصلہ لینا ہر انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ یقین کی روشنی میں اطمینان اور قلبی سکون والی زندگی گزارتا ہے یا پھر تذبذب کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار کر اسی پر اترانے کو ترجیح دیتا ہے؟

(نوٹ: کچھ لوگ صحیح معنوں میں سچائی کے متلاشی بھی ہوتے ہیں مگر ان کا مقصد شکوک و شبہات پھیلانا نہیں بلکہ سوالات کے جوابات حاصل کرنا ہوتا ہے، وہ اپنی ذات کے لیے صدق دل سے حق کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں یہاں تک کہ حق کو پا بھی لیتے ہیں، حق بات قبول کرنے کی راہ میں ان کی انا رکاوٹ نہیں بنتی، ایسے لوگ یہاں زیر بحث نہیں ہیں.)

Comments

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment