اسلامی احکام ہمیشہ کسی معقول علت پر مبنی ہوتے ہیں، اور اگر وہ علت تبدیل ہو جائے تو احکام کے اطلاق میں بھی تغیر آ سکتا ہے۔ اصولِ فقہ میں یہ قاعدہ بیان کیا جاتا ہے:
"الأحكام تدور مع عللها وجودًا وعدمًا"
یعنی شرعی احکام اپنی علت کے ساتھ وجود اور عدم میں گردش کرتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب کسی حکم کی علت باقی رہتی ہے تو وہ حکم بھی لاگو رہتا ہے، اور جب علت ختم ہو جاتی ہے تو حکم کے اطلاق میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔
زکوٰۃ کی شرح ایک منصوص حکم ہے، جس میں کسی اجتہاد کی گنجائش نہیں، لیکن نصاب کی حد اور اس میں دی جانے والی رعایتیں اصلاً اجتہادی معاملات ہیں۔ یہاں بھی اصل علت کو دیکھا جائے گا۔ زکوٰۃ کے نصاب کا تعین بھی اسی اصول کے تحت کیا گیا تھا تاکہ صاحبِ استطاعت افراد ہی اس فریضے کی ادائیگی کے مکلف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دور کی معاشی تبدیلیوں کے تناظر میں زکوٰۃ کے نصاب پر نظرثانی کی گنجائش موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کے نصاب کی جو حد مقرر فرمائی، وہ سنت کے ذریعے منتقل ہوئی ہے۔ اس کے مطابق، مال میں ۵ اوقیہ (۶۴۲ گرام چاندی) اور زرعی پیداوار میں ۵ وسق (۶۵۳ کلو گرام کھجور یا غلہ) کو نصاب مقرر کیا گیا۔ عہدِ رسالت میں چاندی کو نصاب میں معیار بنانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ عام تبادلۂ زر (currency) کا بنیادی ذریعہ تھی اور متوسط طبقے کے مالی حالات کی حقیقی نمائندگی کرتی تھی۔ اس وقت چاندی کی قیمت اور اس کی قوتِ خرید معاشی حالت کا ایک مستند پیمانہ سمجھی جاتی تھی۔ اسی بنیاد پر صاحبِ استطاعت اور مستحقِ زکوٰۃ کے درمیان واضح فرق قائم کیا جا سکتا تھا۔
شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب "حجۃ اللہ البالغہ" میں زکوٰۃ کے نصاب کے تعین کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
"شریعت اسلامیہ نے زکوٰۃ کے نصاب میں کھجور اور غلے کی پانچ وسق کی جو مقدار مقرر کی ہے اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ مقدار ایک چھوٹے سے گھرانے کی سال بھر کی ضروریات کے لیے کافی ہے اور چھوٹے سے گھرانے سے ایک میاں بیوی، ایک بچہ یا ایک ملازم مراد ہے یا اس جیسے کم افراد کے خاندان مراد ہیں۔ انسان کی زیادہ سے زیادہ مقدارِ خوراک ایک رطل یا ایک مُدّ ہے اور یہ مقدار کھا کر بھی اس میں سے کچھ برائے ضرورتِ اتفاقی بچ سکتا ہے۔ اور چاندی کی زکوٰۃ میں پانچ اوقیہ (دو سو درہم) کی مقدار اس لیے مقرر فرمائی کہ یہ مقدار بھی ایک چھوٹے گھرانے کے لیے ایک سال تک کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ قیمتوں میں پورے سال تمام علاقے میں استحکام رہے۔ اور اگر آپ ان علاقوں کا جائزہ لیں جہاں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں توازن رہتا ہے تو آپ اس اصول کو درست پائیں گے۔''
اسی کے ساتھ شریعت میں جانوروں کی مقررہ زکوۃ کے حوالے سے نصاب کے بارے میں شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں:
" اونٹوں کی مقدار پانچ اونٹ اس لیے مقرر کی گئی ہے اور ان پر ایک بکری بطور زکوٰۃ اس لیے رکھی گئی ہے–– حالانکہ اصولاً زکوٰۃ کی جنس وہی ہونی چاہیے جو مال کی جنس ہے–– کہ اونٹ ایک بڑی قامت کا جانور ہے اور اس میں بے حد فوائد موجود ہیں اور وہ کھانے، سواری کرنے، دودھ اور نسل حاصل کرنے کے کام آتا ہے اور اس کی اون اور کھال سے انسان گرمی اور حرارت حاصل کرتا ہے۔ اور بعض لوگ اونٹ کی عمدہ نسل کے چند اونٹ پال لیتے ہیں جو بلحاظ فوائد اونٹوں کی زیادہ مقدار کے مساوی ہوتے ہیں۔ احادیث کے مطابق زمانۂ نبوت میں ایک اونٹ آٹھ، دس اور بارہ بکریوں کے مساوی ہوا کرتا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اونٹ بکریوں کے نصاب کے بقدر مقرر فرما دیے اور ان پر ایک بکری زکوٰۃ مقرر فرما دی۔'' (حجۃ اللہ البالغہ)
یہ رائے اس بات کو واضح کرتی ہے کہ نصاب کی تعیین زمان و مکان اور کسی ایک معاشی نظام سے جُڑے بغیر نہیں کی گئی، بلکہ اس وقت کے تمدنی و معاشی حالات، ایک گھرانے کی مالی ضروریات اور معیشت کے عمومی ڈھانچے کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کے حوالے سے پچھلی شریعتوں میں مختلف معیار اختیار کیے گئے تھے۔ اسلامی شریعت میں بھی نصابِ زکوٰۃ میں تبدیلی تمدنی حالات کے مطابق کی گئی۔ پچھلی امتوں میں ابتداءً زرعی پیداوار کو بنیادی معیار بنایا گیا، بعد کے ادوار میں اجناس کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی نصاب کی بنیاد بنایا گیا۔ جبکہ رسالت مآب ﷺ کے عہد تک معیشت زر اور تجارتی نظام پر زیادہ انحصار کر چکا تھا۔ اس دور میں تبادلے کا نظام بنیادی طور پر سونے اور چاندی پر منحصر ہو گیا تھا، اسی لیے انہیں زکوٰۃ کے نصاب کے لیے معیار مقرر کیا گیا۔
زکوٰۃ کے معاملات میں اجتہاد: تاریخی نظائر:
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب زکوٰۃ کے نصاب میں اجتہاد کی ضرورت پیش آئی ہو۔ تاریخ میں فقہاء اور صحابہ کرام نے نئے اقتصادی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اجتہادی فیصلے کیے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے دوران اسلامی معیشت میں غیر معمولی تبدیلیاں آئیں، جن کے پیش نظر انہوں نے زکوٰۃ کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اس کے اطلاقات میں اجتہاد کیا۔
ان کے اجتہادات کی اجمالی تصویر درج ذیل ہیں:
1-زرعی اجناس پر زکوٰۃ میں استثنا: سیدنا عمرؓ نے زرعی اجناس پر زکوٰۃ میں کچھ رعایتیں دیں، کیونکہ کچھ فصلیں عوام کی بنیادی ضرورت تھیں اور ان پر زکوٰۃ لینے سے لوگوں پر اضافی بوجھ پڑ سکتا تھا۔
2-گھوڑوں پر زکوٰۃ نہ لینے کا فیصلہ: اگرچہ بعض فقہاء کے نزدیک گھوڑوں پر زکوٰۃ فرض تھی، حضرت عمرؓ نے اس دور کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے گھوڑوں پر زکوٰۃ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
3-مویشیوں کی زکوٰۃ میں نرمی: حضرت عمرؓ نے زکوٰۃ کے نفاذ میں نرمی اور سختی کے اصولوں کو مدنظر رکھا تاکہ زکوٰۃ کی اصل روح برقرار رہے۔
۔اسی طرح سے ہمارے فقہا نے بھی انھی ضروریات کے پیش نظر نصاب سے متعلق مختلف معاملات میں وقتا فوقتا اجہتادی اطلاعات کیے ہیں، مثلا: بتدا میں زکوٰۃ زیادہ تر زرعی پیداوار، مویشی، سونے اور چاندی پر فرض تھی، لیکن جیسے جیسے تجارت کا دائرہ وسیع ہوا، فقہاء نے اجتہاد کیا کہ ہر قسم کے تجارتی مال پر زکوٰۃ فرض ہوگی، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو (لباس، جواہرات، قیمتی سامان، اسٹاک وغیرہ)۔ یہی معاملہ کرنسی نوٹ پر زکوۃ اور جانوروں کی مماثل صورتوں پر زکوۃ کا ہے، جیسے بھینس کو گائے پر ہی قیاس کیا گیا۔ یہ اجتہادات اس بات کا ثبوت ہیں کہ شرعی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے اطلاق میں حالات کی رعایت سے اطلاق شریعت کے دائرے میں ممکن ہے۔
اس ضمن میں اس عہد کے دو بڑے مفکرین علامہ یوسف قرضاوی اور جناب جاوید احمد غامدی اپنا موقف پیش کرتے ہیں۔
قرضاوی صاحب کا موقف:
شیخ نے اپنی کتاب فقہ الزکوٰۃ میں اس معاملے پر تفصیل سے بات کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ زکوٰۃ کا بنیادی مقصد معاشرتی عدل و انصاف کو یقینی بنانا ہے۔ یعنی جو واقعی مالی طور پر مستحکم ہو، وہ زکوٰۃ دے، اور جو ضرورت مند ہو، اسے زکوٰۃ ملے۔ لیکن اگر چاندی کے نصاب کو بنیاد بنایا جائے تو وہ لوگ بھی زکوٰۃ دینے کے پابند ہو جائیں گے جو خود مشکلات کا شکار ہیں، جو کہ زکوٰۃ کے مقصد کے خلاف ہے۔شیخ قرضاوی کے مطابق، اصل اصولوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی، لیکن نصاب چونکہ ایک اجتہادی چیز ہے، اس پر غور و فکر ممکن ہے۔ ان کے مطابق ماضی میں سونے اور چاندی کی مالیت میں زیادہ فرق نہیں تھا، لیکن آج چاندی کی قدر بہت کم ہو گئی ہے۔ اگر چاندی کے نصاب کو ہی برقرار رکھا جائے، تو ایک ایسا شخص جو صرف چند سو ڈالر کی مالیت کا مالک ہو، وہ بھی صاحبِ نصاب بن سکتا ہے۔ جبکہ اصل مقصد ایسے افراد کو زکوٰۃ دینا تھا، نہ کہ ان پر زکوٰۃ لازم کرنا۔
وہ لکھتے ہیں:
"سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟ بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟ بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟ یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے! " (فقہ الزکوٰۃ)
اسی موقف کی اصولی تائید جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب میزان میں کی ہے۔
جاوید احمد غامدی کا مؤقف:
غامدی صاحب کے نزدیک زکوٰۃ کی شرح غیر متبدل ہے، کیونکہ یہ براہِ راست خدا کی مقرر کردہ ہے۔ تاہم، نصاب کے تعین اور اطلاق میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔ میزان میں وہ لکھتے ہیں:
"ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے، اور جن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے، اُن کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کر سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال، مواشی اور زرعی پیداوار میں اِسی مقصد سے اِس کا نصاب مقرر فرمایا ہے"۔
غامدی صاحب اگرچہ سونے اور چاندی کے نصاب کو ان دھاتوں کی حد تک آج بھی قابلِ عمل سمجھتے ہیں، مگر پیداوار اور مالی بچت کے معاملے میں ریاست کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ حالات کی رعایت سے زکوٰۃ کے نصاب پر نظرثانی کرتی رہے۔ اس اجتہاد کی بنیاد یہ ہے کہ زکوٰۃ کا بوجھ صرف صاحبِ حیثیت افراد پر عائد ہو اور مالی مشکلات کے شکار افراد اس کے مکلف نہ بنیں۔ اس اصول کے تحت، ریاست کے لیے ممکن ہے کہ وہ بدلتے ہوئے اقتصادی حالات کے مطابق زکوٰۃ کے نصاب اور اطلاق میں ترامیم کرے۔
غامدی صاحب جدید معیشت میں پیدا ہونے والی نئی آمدن کے ذرائع پر بھی زکوۃ کا اطلاق کرتے ہیں اور زکوٰۃ کو محض روایتی ذرائع آمدن (مثلاً زرعی پیداوار، سونا، چاندی، اور مویشی) تک محدود نہیں، سمجھتے اور تنخواہ, خدمات اور کرائے اور جدید پروڈکشن کو پیداوار کی زکوۃ پر اس طرح محمول کرتے ہیں
میزان میں لکھتے ہیں:
"پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یا اصلاً سرمایے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراُس کا ۱۰فی صدی ، اور اگر محنت اورسرمایہ ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی ، اور دونوں کے بغیر محض عطےۂ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۲۰ فی صدی "۔
غامدی صاحب جہاں ایک طرف نئی مماثل پیداواری ذرائع پر زکوۃ کا اطلاق کرتے ہیں وہیں اس کے بنیادی اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے نصاب کی تعیین و اطلاق میں اجتہاد کے بھی قائل ہیں تاکہ زکوٰۃ کا نظام آج کے اقتصادی حالات کے مطابق زیادہ مؤثر اور قابلِ عمل رہے۔
جدید دور میں حدِ نصاب میں تبدیلی کا لائحہ عمل:
ہماری طالبعلانہ رائے میں جدید معیشت میں زکوٰۃ کے نصاب کے تعین کے لیے ایک منطقی اور مؤثر طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ جدید معاشی اصولوں اور ٹیکس سسٹم میں رائج مالی استطاعت کے پیمانوں کو بنیاد بنایا جائے۔ آج معیشت نے مالی حیثیت کو جانچنے کے جو معیارات مقرر کیے ہیں، وہ بہت حد تک سائنسی اور عملی ہو چکے ہیں، اور ان میں کسی بھی فرد یا گھرانے کی حقیقی مالی حالت اور خطے کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جس طرح ٹیکس کے نظام میں ایک مخصوص انکم تھریش ہولڈ (income threshold) مقرر کیا جاتا ہے تاکہ کم آمدنی والے افراد غیر ضروری مالی بوجھ سے محفوظ رہیں، بالکل اسی طرح زکوٰۃ کے نصاب کو بھی اس اصول پر استوار کیا جا سکتا ہے تاکہ زکوٰۃ صرف اُن افراد پر لاگو ہو جو واقعی مالی طور پر مستحکم ہوں، اور متوسط و غریب طبقے پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔
علاوہ ازیں، ٹیکس کی شرح میں وقتاً فوقتاً نظرثانی کی جاتی ہے تاکہ یہ عوام کی مالی صورتحال کے مطابق ہو۔ زکوٰۃ کے نصاب پر بھی اسی اصول کا اطلاق کیا جا سکتا ہے تاکہ اس کا نظام عصرِ حاضر کی معاشی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہو اور اس کی اصل روح متاثر نہ ہو۔ اگر زکوٰۃ کے نصاب کے حوالے سے اجتماعی اجتہاد کیا جائے، تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ نظام مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا سکے گا، اور زکوٰۃ کے حقیقی مقصد، نظم اجتماعی کے معاشی تقاضوں کو معاشرتی عدل و انصاف کی روشنی پورا کیا جا سکتا ہے۔
شاید وقت آ چکا ہے کہ ہم زکوٰۃ کے نصاب پر اجتماعی اجتہاد کریں، جیسا کہ صحابہ کرام اور فقہاء نے اپنے دور میں کیا تھا۔ زکوٰۃ محض ایک مالی فریضہ نہیں، بلکہ خدا کی مقرر کردہ ایک مالی عبادت اور ٹیکس کا نظام ہے، جو اللہ کی حدوں میں رہتے ہوئے نظمِ اجتماعی کے مالی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ یہ ایک الٰہی نظام ہے، جس کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا اور ضرورت مندوں کو وہ حق دینا ہے جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ زکوٰۃ کے نصاب کو جدید معیشت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، تاکہ یہ عبادت اپنی اصل روح کے مطابق ادا ہو سکے اور اللہ کی مقرر کردہ برکات سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہو سکیں۔
مآخذ و حوالہ جات:
1. القرضاوی، یوسف – "فقہ الزکوٰۃ"، دارالقبس
2. غامدی، جاوید احمد – "میزان"، المورد
3. شاہ ولی اللہ – "حجۃ اللہ البالغہ"، دارالکتب العربیہ
4. ابن رشد – "بدایۃ المجتہد"، دارالسلام
5. ابن قیم الجوزیہ – "اعلام الموقعین"، دارابن الجوزی
تبصرہ لکھیے