ہوم << درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی - ڈاکٹر حسیب احمد خان

درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی - ڈاکٹر حسیب احمد خان

آج خواہش تو یہ ہے کہ دل کا درد آپ کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاوے۔ آج کی گفتگو نہ تو کوئی تحریر ہے اور نہ ہی کوئی تقریر ہے، آج کی بات نہ تو کسی عالم کی بات ہے اور نہ ہی کسی بزرگ کا کلام ہے، آج تو ایک طالب حق اور فقیر راہ گزر آپ کے سامنے جھولی پھیلائے حاضر ہوا ہے۔

آج کی گفتگو ذہن کی گفتگو نہیں آج کی گفتگو منطق کی گفتگو نہیں آج کا بیان فلسفے کا بیان نہیں آج تو درد دل کا رونا ہے ۔ آج تو چھلنی جگر آپ کے سامنے رکھنا ہے آج کی بات تو ایک مرثیہ ہے ایک مسلسل نوحہ ہے ایک بلند آواز نوحہ گری ہے آج تو گریباں چاک کرنے کی بات ہے بقول شاعر

دانائی نے پہنچایا ہے جوش جنوں کو پستی میں
چاک گریباں کوئی نہیں ہے دیوانوں کی بستی میں

آج کی گفتگو معاشرے کے اس طبقے سے ہے کہ جنہیں اہل علم کا نام دیا جاتا ہے آج کی فریاد طبقہ علماء کے سامنے ہے آج ایک ایسا شخص کہ جو طفل مکتب بھی نہیں بلکہ کسی مکتب کے سامنے کھڑے بھکاری کے قبیل سے بھی نہیں آپ کے سامنے شکوہ کناں ہے۔ آج ایک فقیرراہ گزر آواز لگا رہا ہے کہ ہے کوئی اللہ کے نام پر دینے والا!
کیا اس سے بڑا بھی کوئی سانحہ ہو سکتا ہے کہ اس دنیا سے علم اٹھ جائے اور علم بھی وہ کہ جس پر ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کا مدار ہو۔ کیا اس بڑا بھی کوئی حادثہ ہو سکتا ہے کہ وہ شمع ہدایت روشن نہ رہے کہ جس کی روشنی میں سالکین حق راستہ تلاش کرتے ہیں۔

کیا اس سے بڑی ظلمت بھی کوئی ہو سکتی ہے کہ خیر کا سب سے بڑا دروازہ بند ہو جاوے۔جی ہاں علم دین کے اٹھ جانے سے بڑا حادثہ اس سے بڑا سانحہ اس سے بڑی آفت کوئی اور ہے ہی نہیں۔ لیکن یہ ہوگا کیسے علم دین کس طرح دنیا سے اٹھ جائے گا، کیا لاکھوں کروڑوں کتابیں معدوم ہو جائیں گی، کیا برقی صفحات پر موجود کروڑوں ریڈیائی بیانات اور تصوریری محاضرات اچانک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے، کیا اچانک عبقریوں کے اذہان سے علوم محو ہو جائیں گے، آخر ایسا کیا ہوگا کہ علوم دنیا سے جدا ہوجائیں اور عالم حقیقی کی طرف پلٹ جائیں۔

مفسر اعظم سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا تم جانتے ہو «ذهاب العلم» (یعنی علم کا اٹھ جانا) سے مراد کیا ہے؟ ہم نے کہا نہیں، فرمایا: اس سے مراد علماء کا اٹھ جانا ہے۔جی ہاں علماء کا دنیا سے رخصت ہوجانا۔ وہ کہ جن کے قلوب کو قرآن و سنت کے چراغ کا طاقچہ بنایا گیا ہو، وہ کہ جن دل مانند مِشکات روشنی کے دیوں سے روشن ہوں، وہ کہ جن کے چہرے انکی روحانی سعادت کے سفیر ہوں ،وہ کہ جن زبان پر حق جاری کردیا جاوے۔ کیا ان کے اٹھ جانے سے بڑی آفت بھی کوئی ہو سکتی ہے ؟

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں (کے سینوں) سے کھینچ لے لیکن وہ علم کو اہل علم کی وفات کے ذریعے سے اٹھائے گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے۔ جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘

تو کیا آج یہ منظر ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے، تو کیا ہم آسمان کو اپنے سروں پر گرتا ہوا نہیں دیکھ رہے ،تو کیا ہماری آنکھیں اندھی اور ہمارے دل کی نگری اندھیر ہو چکی ہے۔آج کی گفتگو علماء سے ہے ۔آج کی گفتگو ان لوگوں سے ہے کہ جو خودی کے امین ہیں، لیکن اپنی خودی سے ناواقف ہو چلے ہیں۔ آج جب میں علماء کو اپنے علوم پر پشیمان اپنے نظام سے پریشان اور اپنے قلوب کے اندر موجود خزانوں کی قیمت سے انجان دیکھتا ہوں تو میرا دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔بلاشبہ آپ کے ساتھ معاش کے مسائل ہیں۔ بے شک آپ کو معاشرے میں وہ مقام نہیں ملا کہ جس کے آپ مستحق ہیں۔ بلاشبہ آج بے باک زبانیں آپ کے خلاف زہر اگلتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج تیروں کا رخ آپ کی جانب ہے ۔یہ سچ ہے کہ آج، آپ نشانے پر ہیں۔ لیکن کیا یہ آپ سے پہلوں کے ساتھ نہیں ہوا ؟

کسی کو زہر دیا گیا ،کسی کی پیٹھ پر تازیانے برسائے گئے ،کسی کو زندان میں قید رکھا گیا، کسی کو سولی، پر ٹانگ دیا گیا ،کسی پر پتھر برسائے گئے ،کسی کی گردن تلوار کے نیچے آئی، کوئی شہر بدر ہوا ،کیاکیا ظلم نہ ہوئے لاکھوں کو توپ دم کردیا گیا، کالا پانی سے گوانتاناموبے تک ایک طویل داستان ہے ۔تو یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ یہ تو پرانا قصہ ہے، اہل حق کے ساتھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے اور اہل حق کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔یہ بات بھی سچ ہے کہ آج کے مسلم معاشروں میں اسلام اجنبی ہوا جاتا ہے تو جان لیجئے کہ خوش خبری ہے اجنبیوں کیلئے.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا، عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا، لہٰذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوشخبری و مبارک بادی ہے“

دیکھیے یہ بات سچ ہے کہ آج کے مسلم معاشروں میں سیاست سے معاشرت سے معیشت سے یعنی ایک مسلمان کی زندگی کے ہر ہر دائرے سے دین نکل چکا ہے ۔یہ سچ ہے کہ آج تشکیک کے سائے انتہائی گہرے ہو چکے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج الحاد کی گرم ہوائیں چل رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ اس بات کی جانب اشارہ نہیں کہ آج ہی آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ کیا آج اس بات کی ضرورت نہیں کہ زندگی کے ہر ہر دائرے میں اسلام زندہ کیا جاوے اور اگر آج کی سب سے اہم ضرورت یہی ہے تو اس ضرورت کو پورا کرنے والے علماء ہی ہیں، جی ہاں !اس ضرورت کو پورا کرنے والے آپ ہی ہیں۔

آج آپ کو نئی نئی آوازیں سنائی دیں گی۔ نئے نئے رنگ دکھائی دیں گے ۔آج ہر طرف تجدد پسندی کے گہرے سیاہ بادل لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ آج کہ جب راہ میں جگہ جگہ گمرہی کے خار پیروں کو زخم آلود کرنے کیلئے بکھرے ہوئے ہیں ۔تو آج ہی تو وہ وقت ہے کہ میدان عمل میں آیا جائے اور خود کو مادیت پرستی کے میلوں ٹھیلوں سے بچا کر خالص روحانیت اور روایت پسندی کی چادری میں لپیٹے رکھا جائے کہ یہی ستر پوشی کی آخری کوشش ہے۔دیکھیے آپ کو مال کی طرف بلایا جاوے گا۔ آپ کو شہرت کی طرف دعوت دی جائے گی۔ تجدد پسندی کے بڑے بڑے اداروں سے آپ کو اونچے اونچے عہدے ملنے کی نوید سنائی جائے گی۔

استشراقی ادارے آپ کیلئے خزانوں کے منہ کھولنے کو تیار ہوں گے۔ بڑی بڑی کانفرنسوں کے چمکتے ہوئے بلند آواز منبر آپ کو بلاتے ہوں گے ۔کہیں پر آپ کو ادیب بنایا جائے گا، کہیں پر آپ کو خبروں کے جنگل میں گھسیٹا جائے گا ،کہیں پر آپ کو بطور موٹیویشنل اسپیکر پیش کیا جائے گا ،کہیں کسی چرچ کے ماتحت چلنے والے استشراقی ادارے سے آپ کو استغرابی فکر پر آجانے کی دعوت دی جائے گی، کہیں پر حقیقی اسلام سے آسان اسلام کی جانب بلایا جاوے گا کہیں پر آپ پانچ ستاروں والے ہوٹلوں کے چکنے فلورز پر چمکتے ہوں گے ، تو کہیں پر آپ کیو میڈیا سلیبرٹی کے طور پر پیش کرنے کی تیاری ہوگی، کہیں پر آپ کا برانڈ چلے گا اور کہیں پر آپ خود ایک برانڈ بنا دیے جائیں گے۔ جی ہاں ! شاہوں کے خزانوں کے دروازے اور درباروں کے در آپ کے لیے یکساں وا کر دیے جائیں گے۔

اور پھر سوشل میڈیا کی چکا چوند، جی ہاں! واہ واہ کرنے والوں کی ایک بھیڑ ،ایک ریوڑ آپ کے پیچھے ہوگا۔ دیکھو دیکھو یہ سابقہ مولوی ہے اور مدرسے کو گالی دیتا ہے۔ کہیں پر آپ سوشل میڈیا ٹرولز کے بادشاہ بنادیےجائیں گے اور بھوکے گدھوں کی طرح علماء کی لاشوں کو بھنبوڑنے والے آپ کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ اگر آپ مدرسے کو برا کہیں گے تو زیادہ شہرت ہوگی ،اگر آپ مولوی کو گالی دیں گے تو زیادہ مشہوری ہوگی ،اور کبھی آپ کسی خفیہ احساس کمتری کے طور پر اپنا عالم ہونا چھپائیں گے اپنے نام سے بھاگیں گے کہ پہچان نہ لیے جاویں۔ کوئی آپ پر مدرسے سے ہونے کی تہمت نہ لگا دے ،کہیں پر آپ کو عالم کہ کر نہ پکارا جاوے۔ جی ہاں ! آپ کو آپ کے نام، آپ کی حقیقی پہچان سے دور کیا جاوے گا۔

دیکھیے علماء نے سیاست بھی کی ہے کیا شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒ کا نام کسی کو یاد نہیں ،جی ہاں علماء نے صحافت بھی کی ہے کیا مولانا مجاہد الحسینی ؒ کے نام سے کوئی واقف نہیں، جی ہاں علماء نے ادب بھی لکھا ہے کیا کسی نے سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کی تحریر نہیں پڑھی، جی ہاں علماء قاضی بھی رہے ہیں کیا کوئی مفتی تقی عثمانی صاحب کو کوئی نہیں دیکھتا ،جی ہاں علماء نے شاعری بھی کی کیا خواجہ نفیس الحسینی ؒ کے اشعار آپ کی نگاہ سے نہیں گزرے ،یہ سچ ہے کہ علماء نے یونیورسٹیوں میں محاضرات بھی بیان فرمائے مولانامحمود احمد غازی مرحوم کو یاد کیجئے ۔تو جناب یہ ضروری نہیں کہ کامیابی کیلئے اپنی مدرساتی پہچان پر پشیمان ہوا جائے آپ ہر ہر میدان کے فاتح بن جائیں لیکن اپنی بنیاد سے جڑ کر رہیے۔

یا رکھیے کہ جب تک دین ہے آپ کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ پر موجود ہے یہ جو آواز لگ رہی ہے کہ آج آپ کی ضرورت نہیں یہ صرف ایک ابلیسی بازگشت ہے اسے سن کر گزر جائیے۔ اگر دین کو زندہ رکھنا ہے تو اسے آپ ہی کے توسط سے زندہ رکھا جاوے گا بس سوال صرف اتنا ہے کہ آپ اس بوجھ کو اٹھانے کیلئے تیار ہیں یا نہیں ہیں۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُۗ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ۙ
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اُسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

تو بوجھ کو نہ دیکھیے عاشق بن جائیں مجنوں بن جائیں علامہ ؒنے کیا خوب فرمایا ہے

خرد سے راہرو روشن بصر ہے
خرد کیا ہے، چراغِ رہ گزر ہے
درُونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے!

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment