ہوم << ’وھابی کی لڑکی‘ - سحر فاروق

’وھابی کی لڑکی‘ - سحر فاروق

محترم محمد فیصل شہزاد کی دو شگفتہ تحاریر جو اپنے ظرافت کے نمایاں رنگ کو لفظ لفظ سے تقویت پہنچا رہی تھیں، پڑھ کر بہت محضوظ ہوئے اور اگر یہ کہیں کے بطور وہابی جتنا لطف ہم نے اس تحریر سے لیا، کسی دوسرے کو شاید ہی آیا ہوگا کیونکہ ضاد اور ضواد کی ازل سے ابد تک جاری رہنے والی لڑائی کے ہم بھی چشم دید گواہ ہیں۔ لیکن اور بھی غم ہیں زمانے میں ضاد کو ضواد پڑھنے کے سوا.
ہمیں بھی اپنے بچپن کی پہلی دہائی کے ان کہے دکھ یاد آگئے ( یہ مکمل پڑھنے کے بعد کوئی ہمیں ندیدہ ہرگز نہ سمجھے ) جب وہابی ہونے کی سمجھ تو کیا لکھنا بھی ٹھیک سے نہیں آتا ہوگا، لیکن یہ گھٹی میں پڑا تھا کہ جناب ہیں کیا. اول تو کسی’’ختم‘‘ کی تقریب چاہے کسی بھی نوعیت کی ہو، ہمیں پاس بھی پھٹکنے کی اجازت نہ ہوتی، گھر والوں سے زیادہ ہماری سہیلیوں اور دوستوں کو ہمارے عقائد کی فکر رہا کرتی حالانکہ ہماری دلچسپی کا سامان محض اگربتی کی تیز خوشبو (جس سے ہم خود کو محروم تصور کرتے تھے) میں بسے ماحول میں دوستوں کے ہمراہ بریانی کھانا اور واپسی پر خاکی لفافوں میں بند بالو شاہی سے انصاف کرنا ہوتا. جو بعد میں وہی مخلص دوست چڑا چڑا کر ہمیں دکھا دکھا کر کھایا کرتے لیکن یہ کسی سے کبھی نہ ہوا کہ ایک ہمارے لیے بھی اٹھا لائیں، فدوی کفِ افسوس ہی مَلتے رہ جاتے ایسے ناکارہ اور خود غرض دوست بنانے پر۔
محرم کی آمد کے ساتھ ہی پورے پاکستان کی طرح ہمارے محلے میں بھی گلابی شربت میں ڈھیروں بادام پستے اٹھکلیاں کرتے ہمیں متوجہ کرتے تھے، حاتم طائی کی روح کو مات دیتے ہوئے یہ شربت تقسیم کیا جاتا تھا، اور شربت کے ڈرم میں بلا تعطل سپلائی جاری رہتی تھی لیکن ہمارا یوں متوجہ ہونا کسی بھی دن باعثِ وصال نا ہو سکا. محلے کے بچے عینک والا جن کے زکوٹا کی طرح گلاس پر گلاس چڑھاتے قیامت تک کی پیاس کا سدِ باب کر ڈالتے۔ ایک بار گلابی شربت سے اپنی والہانہ محبت سے مجبور ہوکر سوچا کہ نوش فرمانے کی سعادت حاصل کر ہی لیتے ہیں مگر برا ہو ہماری عزیز دوست نما سہییلی کا، جوں ہی گلاس ہاتھ میں آیا، عین موقع پر بھانڈا پھوڑ دیا کہ ’’ اینوں کیوں دیندے او، اے لوکی وہابی نیں‘‘ بس پھر وہ شربت اور وہ دوری ، ہم نے دل میں تہییہ کر ڈالا کہ اتنے سنگین جرم کے بعد وہ ہماری دوستی کی ہرگز حق دار نہیں۔
ایک سہیلی کے والد صاحب تو برملا کنجوس کہہ ڈالتے تھے کہ ہم حلوے پکاتے نہ کونڈے کرتے۔ ساتھ ہی وہ مشورہ بھی یاد ہے جو انہوں نے دیا تھا کہ چلو کسی کے گھر نہ بھیجو مگر گھر میں بنا لو ثواب ملتا ہے، ہمیں واقعی مناسب لگا تھا کہ ضرور گھر میں ذکر کرنا چاہیے، لیکن وہ بچپن کی بےفکری، مغرب کے وقت گھر میں داخل ہوتے سارے چھوٹے چھوٹے غم بھول جایا کرتے۔ شب رات کے زمانے میں بننے والے طرح طرح کے حلووں سے ہمیں کبھی دلچسپی نہ رہی ہاں البتہ کونڈوں کے نام پر جو میٹھی ٹکیاں بنائی جاتی تھی اور اہتمام سے گھروں میں بلا کر کھلائی جاتی تھی، وہ ہمارا بڑا دل لبھاتی تھیں کیونکہ وہ یکسر ایک نئی شے تھی ہمارے لیے لیکن کسی سے اتنا نہ ہوتا کہ زبردستی کھلا کر ثواب دارین کا حاصل کرتا. آہ وہ سنہری میٹھی ٹکیاں آج بھی ہمیں ناسٹلیجک کر ڈالتی ہیں جب تک اپنے مبارک ہاتھوں سے بنا نہ ڈالیں.

Comments

Click here to post a comment