ہوم << کیا اعتکافی تربیت گاہ کا نیا تصور درست ہے؟-ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

کیا اعتکافی تربیت گاہ کا نیا تصور درست ہے؟-ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

ابھی رمضان المبارک کا آغاز ہوا ہے اور اس کی ایک عبادت 'اعتکاف' کا آغاز ہونے میں کافی دن باقی ہیں ، لیکن لوگوں میں اس سے دل چسپی کا ابھی سے آغاز ہوگیا ہے. اس کا اندازہ ان سوالات سے ہوتا ہے جو طلبہ ، طالبات ، مرد حضرات اور خواتین کی طرف سے کیے جانے لگے ہیں.

ایک طالب علم نے سوال کیا : ” انکل ! میرے ایگزام ہونے والے ہیں، میں اعتکاف بھی کرنا چاہتا ہوں. کیا میں دورانِ اعتکاف کورس کی کتابیں پڑھ سکتا ہوں؟ “
میں نے دریافت کیا: ” پھر اعتکاف کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ “
اس نے جواب دیا :” بہت سے لوگ اعتکاف کرتے ہیں - اچھا لگتا ہے. میں بھی اعتکاف کرنا چاہتا ہوں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہوں کہ ایگزام میں اچھے نمبر آئیں. “
میں نے کہا : ” ایگزام پر توجہ دیجیے. باقی کچھ وقت ملے تو اس میں عبادت کرلیجیے. “

پچھلے سال اسی طرح ایک کالج کے استاد نے دریافت کیا تھا: ” ہم نے کچھ طلبہ کو اعتکاف میں بٹھادیا ہے. ان میں سے دو طالب علموں کو ایک تقریری مقابلے میں حصہ لینا ہے. کیا وہ جاسکتے ہیں؟ “
میں نے انہیں جواب دیا تھا: ”آپ نے ان طلبہ کو ناحق پریشان کیا. انھیں اعتکاف میں بٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم از کم جن طلبہ کا نام تقریری مقابلے میں لکھوادیا تھا، انھیں تو اعتکاف میں نہ بٹھاتے.“

ایک لڑکی کا فون آیا : ” میں اعتکاف کرنا چاہتی ہوں، اس کا کیا طریقہ ہے؟ “
میں نے عرض کیا : ”آپ چاہتی ہیں کہ ایک کمرے میں بیٹھ جائیں اور آپ کی ماں یا بہنیں آپ کو سحری ، افطار اور کھانا پکاپکاکر کھلاتی رہیں.“
اس نے کہا : ” انکل! اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے. حدیث میں اعتکاف کا ثواب دو حج کے برابر بتایا گیا ہے.“
میں نے کہا : ” اللہ کے رسول ﷺ، امہات المؤمنین اور بعض صحابہ کا اعتکاف کرنا ثابت ہے، لیکن اس کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے، اور دو حج کے برابر ثواب والی روایت تو موضوع یعنی من گھڑت ہے.“

ایک صاحب نے فون کرکے دریافت کیا : ”کیا سفر کرکے دوسری جگہ جاکر اعتکاف کیا جاسکتا ہے؟“
میں نے انھی سے سوال کردیا: ”کیا آپ کے محلے یا شہر میں کوئی مسجد نہیں ہے؟“
کہنے لگے: ”ایک شہر میں اعتکافی تربیت گاہ منعقد کی جارہی ہے، جس میں شرکت کے لیے دوسرے مقامات سے لوگوں کو مدعو کیا جارہا ہے. ٹرین کا شیڈول بتایا جارہا ہے کہ کیسے اعتکافی تربیت گاہ والے شہر پہنچیں. کہا جارہا ہے کہ اجتماعی اعتکاف کے دوران تقریریں کی جائیں گی، تربیت و تزکیہ کے طریقے بتائے جائیں گے.“
میں نے عرض کیا: ”آپ کو تربیتی اجتماع میں شرکت کرنے کا شوق ہے تو ضرور سفر کرکے دوسرے شہر جائیے، لیکن اسے اعتکاف کا نام نہ دیجیے. اعتکاف اور تربیتی اجتماع کو خلط ملط کرنا مناسب نہیں ہے.“
کہنے لگے : ” اعتکاف کے منتظم کا کہنا ہے کہ لوگوں کو نماز، تلاوتِ قرآن، دعا، ذکر، استغفار اور دیگر روحانی اعمال میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا طریقہ نہیں معلوم ہے. اعتکاف کے دوران منعقد ہونے والے پروگراموں میں اس کے عملی طریقے بتائے جائیں گے۔“
میں نے جواب دیا: ”یہ بڑی بدگمانی کی بات ہے کہ لوگ نماز، ذکر اور دعا کرنے کا صحیح طریقہ نہیں جانتے. اگر واقعی نہیں جانتے تو ان کی اصلاح و تربیت کے مواقع پورے سال رہتے ہیں. انہیں اجتماعی اعتکاف کے نام سے جمع کرنا اور اس میں عبادات کا صحیح طریقہ بتانا مناسب نہیں ہے.“
کہنے لگے: ” اس میں روزانہ ایک سیشن میں شخصیت سازی اور زندگی کے اہداف کی بہتر منصوبہ بندی پر رہ نمائی فراہم کی جائے گی. اس کے متعلق لیکچرز ہوں گے.“
میں نے عرض کیا:”پرسنلٹی ڈیولپمنٹ پر لیکچر دینے کے مواقع پورے سال رہتے ہیں. ایسے پروگرام رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں کرنے چاہییں. رمضان کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے. اسے عبادات کے لیے خاص رہنے دینا چاہیے.“
کہنے لگے: ”یہ اعتکافی تربیت گاہ ایک دینی جماعت منعقد کررہی ہے. وہ اپنے وابستگان کو مختلف مقامات سے مدعو کررہی ہے.“
میں نے عرض کیا: ”کوئی دینی جماعت ہو یا دینی شخصیت، اسے مسلمانوں کے دینی جذبے کا استحصال نہیں کرنا چاہیے. خانقاہی نظام میں اس کو رواج دیا گیا ہے ، چنانچہ بعض خانقاہوں میں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوکر اجتماعی اعتکاف کرتے ہیں. اس دوران وہ اپنے پیر سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں. بہرحال یہ طریقہ سنت سے ثابت نہیں ہے.“
میں نے مزید عرض کیا: ”جماعت اسلامی ہند بھی ایک دینی جماعت ہے، لیکن اجتماعی اعتکاف کے اس طریقے کو پسند نہیں کرتی. اس کے اکابر نے کبھی اسے رواج دینے کی کوشش نہیں کی. جناب محمد جعفر سابق نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے ایک واقعہ سنایا کہ جماعت کے رہ نما جناب محمد مسلم سابق ایڈیٹر سہ روزہ دعوت دہلی ایک مرتبہ ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں مولانا محمد منت اللہ رحمانی سے، جو آل انڈیا مسلم پرسنل لا کے پہلے جنرل سکریٹری، جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست اور خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین تھے، ملاقات کرنے کے لیے ان کی خانقاہ تشریف لے گئے. وہاں دو سو کے قریب لوگ اعتکاف کے لیے آئے ہوئے تھے. مسلم صاحب نے بے تکلفی سے مولانا رحمانی سے دریافت کیا: ”کیا یہ سنت کے مطابق ہورہا ہے؟“ مولانا نے معذرت کی: ”میں انھیں نہیں بلاتا ہوں، یہ لوگ خود آجاتے ہیں.“

اعتکاف ایک عبادت ہے، جس کا تعلق رمضان المبارک کے آخری عشرہ سے ہے. اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیشہ اعتکاف کیا ہے. امہات المؤمنین اور بعض صحابہ سے بھی اعتکاف ثابت ہے. جسے اعتکاف کرنا ہے وہ ضرور کرے، لیکن اعتکاف اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح سنت سے ثابت ہے. اسے تربیتی اجتماع اور پرسنلٹی ڈیولپمنٹ کا ورک شاپ نہیں بنادینا چاہیے.