گزشتہ شام ” اعتکافی تربیت گاہ کا نیا تصور“کے عنوان سے محترمی ومکرمی مولانا محمد رضی الاسلام ندوی صاحب کی ایک تحریر فیس بک اور وہاٹس اپ پر پڑھنے کو ملی۔
فقہی مسائل کے سلسلے میں مولانا موصوف کی تحریریں کافی اہم اور معتدل انداز کی ہوتی ہیں۔ آسان زبان، عام فہم اسلوب، اور معتدل فقہی موقف کی وجہ سے یہ تحریریں اپنے اندر انفرادیت رکھتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن اعتکاف سے متعلق مولانا کی یہ تحریر کئی پہلوؤں سے محل نظر تھی؛
- ایک تو اس تحریر میں شروع سے آخر تک ردعمل کا پہلو غالب نظر آرہا تھا۔
- دوسرا یہ کہ اس تحریر کے آغاز میں مذکور تینوں سوالات اور ان کے جوابات مرکزی موضوع سے کسی طور پر بھی مناسبت نہیں رکھتے تھے۔
- اور تیسرا یہ کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بار بار یہ احساس ابھر کر سامنے آرہا تھا کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر بذات خود اعتکاف کی عبادت کی اہمیت کو کم کرکے دکھایا گیا ہے۔
مولانا کی تحریر سے متعلق کچھ معروضات پیش خدمت ہیں، ان معروضات کا اصل مقصد موضوع پر سنجیدہ گفتگو کو آگے بڑھانا، اور درست موقف تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہے، امید کہ ان معروضات کا مطالعہ کرتے وقت یہ پہلو سامنے رہے گا۔
پہلی بات: اگر یہ بات مان لی جائے کہ اعتکاف کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے، پھر بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا پابندی کے ساتھ اعتکاف کرنا، امہات المومنین اور صحابہ کرام کا اس سنت پر عمل کرنا، اور ہر دور میں امت کے صالحین اور بزرگوں کا پورے اہتمام کے ساتھ اعتکاف کرنا، اعتکاف کی اہمیت اور فضیلت بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسری بات: ایک طالب علم تقریباً پچیس سے تیس سال تک طالب علمی کے مرحلے میں ہوتا ہے۔ اس دوران نرسری سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک ہر تین ماہ یا چھ ماہ پر ایگزام اور اس کی تیاری اور تقریباً ہر ماہ ٹسٹ اور اسائنمنٹ اور ان کی تیاری کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ یہ عمر کا قیمتی ترین وقت ہوتا ہے۔ یہی عبادت کا بھی بہترین زمانہ ہوتا ہے، اس لیے کہ جوانی کی عبادت کی غیرمعمولی اہمیت بیان ہوئی ہے، اور یہی تعلیم کے حصول کا بھی اہم ترین وقت ہوتا ہے۔ کیا ایک طالب علم جوانی میں اعتکاف کی عبادت اور اس عبادت کی لذت اور ثواب سے خود کو صرف اس لیے محروم رکھے کہ یہ اس کا دور طالب علمی ہے! کیا اعتکاف کے دوران عبادات کے علاوہ دوسرے جائز کاموں کی اجازت نہیں ہے؟! کیا اعتکاف کے دوران مسجد میں وہ اعمال بھی ممنوع ہوجاتے ہیں جو عام اوقات میں ممنوع نہیں ہوتے؟!
تیسری بات: اگر کچھ طلبہ اعتکاف کے لیے وقت نکال رہے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، اگر تقریری مقابلے میں شرکت کے لیے فقہی گنجائش نکلتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر اس کو مشورہ دیا جائے گا کہ وہ تقریری مقابلہ چھوڑ دے اور اعتکاف کی عبادات پر توجہ مرکوز رکھے۔ اعتکاف کا موقع پھر ملے نہ ملے۔
چوتھی بات: اگر کوئی لڑکی اعتکاف کا شوق رکھتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ لڑکیوں کے درمیان اس قسم کے شوق کا پروان چڑھنا ہر اعتبار سے بہتر اور لائق تحسین ہے۔ سال بھر کچن میں مصروف رہنے والی ایک لڑکی اگر دس دن عبادت کے لیے گھر کے ایک کمرے میں معتکف ہونے کا ارادہ کرتی ہے تو اس میں کیا ہرج ہے کہ دس دن تک ماں اور گھر کی دوسری خواتین اس کو پکا پکا کر کھلاتی رہیں۔
پانچویں بات: فقہ کی کتابوں میں دور کی مساجد میں اعتکاف کی ممانعت کی کوئی واضح شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔ نہ تو قرآن مجید میں ایسی کوئی نص موجود ہے اور نہ صحیح احادیث میں۔ یہ بہرحال ایک اختلافی مسئلہ ہے، اور ایک ایسا اختلافی مسئلہ ہے جس میں اعتدال اور توازن اختیار کرنا ہی درست اور مطلوب موقف ہوگا۔
چھٹی بات: مولانا کا یہ کہنا کہ “کوئی دینی جماعت ہو یا دینی شخصیت، اسے مسلمانوں کے دینی جذبے کا استحصال نہیں کرنا چاہیے”، اصولی طور پر تو بالکل درست ہے، لیکن اسے اجتماعی اعتکاف کی روایت کے تناظر میں پیش کرنا صریح طور پر زیادتی ہے۔
ساتویں بات: اسلامی عبادات کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کا ایک پہلو انفرادی ہے اور ایک پہلو اجتماعی۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اپنے آپ میں انفرادی عبادتیں ہیں، جن کا تعلق خاص فرد سے ہے، فرد سے ہی مطلوب بھی ہیں اور فرد ہی ان کے سلسلہ میں جوابدہ بھی ہے۔ لیکن ان تمام عبادتوں کے اجتماعی پہلو بھی ہیں، جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
آٹھویں بات: عبادتوں کے اجتماعی پہلو سے متعلق کچھ اضافی یا مقاصدی نوعیت کی چیزیں ہیں، جو عبادات کے لیے تیار کرنے والی ہوتی ہیں، یا وقت اور حالات کے تحت ان کی ضرورت پیش آتی ہے، اور فقہاء ان کے سلسلہ میں ایک موقف اختیار کرتے ہیں، لہٰذا ان چیزوں کے سلسلے میں شدت اختیار کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ مثلاً جو لوگ جمعہ کے خطبے کے لیے عربی زبان کی شرط کو لازم مانتے ہیں، اور ہندوستان میں عمومی طور پر یہی موقف رائج ہے، اگر یہ لوگ تذکیر کے پہلو سے خطبہ سے پہلے بیان کا اہتمام کرتے ہیں، اور اس بیان کو ہندوستان جیسے حالات کے تناظر میں فقہی تائید بھی حاصل ہوجاتی ہے، تو پھر اس بیان کے سلسلے میں ہمارے موقف میں بھی اس کی رعایت ہونی چاہئے۔ اسی طرح شب قدر کی تلاش ایک انفرادی عمل ہے، اس کے لیے لوگ آخری عشرے کی طاق راتوں مساجد میں اکٹھا ہوکر عبادت کرتے ہیں، اور پھر اس رات بزرگوں کے دروس اور بیانات بھی ہوتے ہیں اور تحریکوں وتنظیموں کے پروگرام بھی ہوتے ہیں، اور ان سب کا مقصد شب قدر کی عبادتوں میں نکھار لانا اور ان کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی عالم اٹھے اور اس کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ایک تحریک چھیڑ دے تو اس کو کسی بھی صورت درست نہیں قرار دیا جاسکتا۔ بالکل اسی طرح ہماری مساجد میں رائج نماز فجر اور نماز عصر کے بعد دروس کا اہتمام بھی ہے۔ ان تمام امور کے سلسلہ میں ہمیں اعتدال اور توازن کا رویہ اختیار کرنا ہوگا، اور شریعت کے اعلی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔
نویں بات: اعتکاف کے دوران فقہاء نے کچھ چیزوں کی اجازت دی ہے، یہ اجازتیں فقہ کی بڑی کتابوں میں موجود ہیں، فقہ شافعی کی بنیادی کتابوں میں بھی اور فقہ حنفی کی بنیادی کتابوں میں بھی، ان چیزوں میں: خریدوفروخت کے مختصر معاملات، نکاح، اور مختلف جائز امور پر بات چیت وغیرہ بھی شامل ہے، روایتوں میں تو یہاں تک آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے دوران ازواج مطہرات سے سر پر تیل بھی رکھوا لیتے تھے۔ اگر فقہاء نے ان امور کی اور ان جیسے دیگر امور کی اجازت دی ہے، تو پھر اعتکاف کے دوران کچھ دروس، کچھ لکچرس اور کچھ بیانات ہوجانے میں کیا ہرج ہے؟!
دسویں بات: اجتماعی اعتکاف کی ہمارے یہاں امت میں ایک اچھی روایت موجود رہی ہے، بہت سی اسلامی شخصیات بھی اس کا اہتمام کرتی رہی ہیں اور بہت سی اسلامی تحریکات اور ادارے بھی۔ خانقاہی نظام میں بھی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکات میں بھی۔ مصر کی اخوان کے تربیتی نظام میں بھی اجتماعی اعتکاف کی روایت شامل ہے اور شہر عزیمت کے جیالوں کے یہاں بھی اجتماعی اعتکاف کی روایت موجود ہے۔
گیارہویں بات: جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں اجتماعی اعتکاف کا پروگرام ایک تنظیمی فیصلے کے تحت تھا، اور کئی سال تک اس کا اہتمام ہوتا رہا ہے، میرے علم کی حد تک نہ تو اس اعتکاف کو شروع کرنے کے پیچھے کوئی مضبوط فقہی موقف تھا، اور نہ اس کو بند کرنے کے پیچھے کوئی مضبوط فقہی موقف تھا۔ یہ ایک خالص تنظیمی فیصلہ تھا، جس کے پیش نظر رمضان المبارک میں مرکز کی مسجد میں ملک بھر سے منتخب افراد کو لاکر ان کی تربیت کا اہتمام کرنا تھا۔
بارہویں بات: اجتماعی اعتکاف کے خلاف جو سب سے بڑی دلیل دی جاتی ہے وہ یہ کہ اعتکاف انفرادی عبادت ہے، یہ عبادت تنہائی چاہتی ہے، لوگوں کے درمیان بیٹھ کر یہ عبادت متاثر ہوجاتی ہے۔ لیکن وہ مساجد جن میں لوگ انفرادی اعتکاف کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگ ایک ساتھ اعتکاف کرتے ہیں، اور رمضان کی وجہ سے دن بھر مساجد میں لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے، یا حرم مکی ومدنی یا قدس میں اعتکاف کرنے والے تو ہزاروں ہوتے ہیں، اور ان کے علاوہ ہزاروں مستقل زائرین بھی ہوتے ہیں، پھر ایسی صورتوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا!
تیرہویں بات: یہ بات کہ سیکھنے کے لیے رمضان یا اعتکاف کے علاوہ ایام بھی موجود ہیں، کیا ہی ضروری ہے کہ رمضان میں ہی یہ اجتماعی پروگرام بنائے جائیں، میرے خیال سے درست بات نہیں ہے۔ رمضان کا اپنا ماحول ہوتا ہے، روحانیت والا ماحول، سیکھنے سکھانے والا ماحول، عبادتوں کی کثرت اور عبادتوں کے شوق والا ماحول، رمضان اور اعتکاف کے اس ماحول کو تربیت اور تعلیم کے لیے استعمال کرنا کئی پہلوؤں سے زیادہ مفید اور زیادہ کارگر ہوتا ہے۔
چودہویں بات: اعتکاف کی عبادت کے لیے مسجد میں جب تک ایک فرد اکیلا ہوتا ہے اس وقت تک وہ انفرادی اعتکاف ہوتا ہے، اور جیسے ہی کچھ افراد کا اضافہ ہوجاتا ہے، انفرادی اعتکاف اجتماعی اعتکاف یا اعتکافی تربیت گاہ میں تبدیل ہوجاتا ہے، مسجد نبوی، مسجد حرام، یا مسجد اقصیٰ کا اعتکاف تو ہر حال میں اجتماعی اعتکاف ہی ہوتا ہے، اور یہ وہ اجتماعی اعتکاف ہے جو عملی تواتر سے ثابت ہے۔ ان تینوں مساجد میں تو ہر وقت دروس اور تذکیروں کے حلقے چلتے رہتے ہیں، لیکن دیگر مساجد میں عبادات کے علاوہ کافی وقت خالی رہ جاتا ہے، جس کو منظم کرنے کے لیے اعتکافی تربیت گاہ کا بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور دوسرے مناسب حال طریقے بھی۔
پندرہویں بات: اجتماعی اعتکاف کے غلط ہونے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے، لیکن اعتکاف کے کچھ شرعی مقاصد علماء نے ضرور بیان کیے ہیں، اجتماعی اعتکاف کا اہتمام کرنے والوں کو ان مقاصد کی رعایت ضرور کرنی چاہیے۔ اور اجتماعی اعتکاف کا پروگرام بناتے وقت اس بات کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے