روزنامہ جنگ ایک مؤقرروزنامہ اورمحترم حامد میرایک منجھے ہوئے سردوگرم چشیدہ سینئرصحافی ،کالم نگار وتجزیہ کار ہیں۔اس ملک کی تاریخ کی تین دہائیوں کے عینی شاہد۔اس اعتبار سے ان کے کالم ومضامین اورتبصرے وتجزیے سنجیدگی کامظہرہوتے ہیں۔گزشتہ جمعہ کوجامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں جامعہ کے نائب مہتمم، دفاع پاکستان وافغانستان کونسل کے سربراہ سابق رکن قومی اسمبلی مولانا حامدالحق حقانی کوبے دردی سے شہید کردیا گیا۔اس تناظرمیں حامد میرصاحب نے اپنے حالیہ کالم میں اُن کی شہادت کاذمہ دارملک میں کئی دہائیوں سے جاری شیعہ سنی آویزش کوقراردیا ہے، جسےعرفِ عام میں فرقہ واریت کہاجاتاہے۔انھوں نے اس حوالے سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ جب وہ ایک اخبار کے مدیر تھے توانھوں نے اس حوالے سےایک تحریری مکالمے کابھی آغاز کیا تھا،جس کے پہلے شریک کالعدم سپاہ محمدکےبانی مریدعباس یزدانی اورکالعدم سپاہ صحابہؓ کے سربراہ مولانا ضیا الرحمٰن فاروقی تھے،بعدازاں یہ دونوں شخصیات نامعلوم قاتلوں کی سفاکیت کا نشانہ بنادی گئیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھاہے کہ مولانا سمیع الحق شیعہ سنی اتحاد وہم آہنگی کے لیے کوشاں رہے، اورملی یکجہتی کونسل اسی سلسلے کی کڑی تھی،جس نے،ان کے مطابق،متحدہ مجلس عمل کی صورت اختیارکرلی تھی،وہ بجافرماتے ہیں کہ مولانا حامدالحق حقانی اپنے والدکے جانشنین تھے اوروالدشہید کی طرح وہ بھی اس اختلاف کے خاتمے کے لیے کوشاں رہتے تھے،جس کاایک ثبوت یہ ہے کہ وہ متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پررکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔انھوں نے اس خدشے کابھی اظہار کیاہے کہ اگرپاکستان کے شیعہ سنی علمااب بھی متحد نہ ہوئے توخطے میں جاری ڈرٹی گیم کا نشانہ بن جائیں گے۔
محترم حامدمیر کی نیک نیتی اوردوراندیشی ہرقسم کے شک وشبہ سے بالاترہے۔ان کی جتنی بھی باتیں ہیں،انھیں محتاط الفاظ میں آدھا سچ کہاجاسکتاہے۔انھوں نے مولاناحامدالحق حقانی کی شہادت کو شیعہ سنی اختلاف یافرقہ واریت کانتیجہ قرار دیا ہے۔یقیناًاس دعوے کے ثبوت کے لیے ان کے پاس دلائل ہوں گے،تاہم بادی النظرمیں فی الوقت پاکستان میں ایسے کوئی فسادات نہیں ہیں،ہاں!خیبرپختونخوا میں اگران کااشارہ کرم ایجنسی کے حالات کی طرف ہے تواسے دورکی کوڑی کہاجاسکتاہے،کیونکہ اس سلسلے میں جامعہ حقانیہ یامولانا حامدالحق کاکوئی ایساکردار سامنے نہیں لایا جا سکتا ، جس سے دوسرے فریق کے مفادات کو زَد پہنچی ہویاان کے مطالبات کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی ہو۔جانے کیوں،حامدمیرصاحب پاک افغان سرحدی تنازع کاذکرکرنا بھول گئے،بلکہ اس طرف منتقل ہونے والے اذہان کواپناہم نوا بنانے کے لیے انھوں نے یہ تیربہدف جملہ لکھ کربات کارُخ فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا: ان کے مدرسے سےصرف جلال الدین حقانی نے نہیں بلکہ برہان الدین ربانی، مولوی نبی محمدی، مولوی یونس خالص اور دیگر افغان رہنماؤں نے بھی تعلیم حاصل کی۔
دوسری بات یہ کہ انھوں نے بیلنسنگ پالیسی رکھتے ہوئےیہ تولکھ دیا: مولانا حامد الحق حقانی کی شہادت اسی سازش کی کڑی ہے جس کےتحت کبھی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو لاہور میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی شہادت کے فوراً بعد پشاور میں علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کردیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے سے لڑا دیا جائے۔اس سے انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ چونکہ اہل سنت واہل تشیع متحدنہیں، اس لیے دشمن فائدہ اٹھاکے ان کے علماء کوشہیدکرتاہے تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں، اورایک دوسرے کوقاتل قراردیں۔انھوں نےاس کی کوئی تفصیل شایداسی لیے ذکرنہ کی کہ کہیں ان کے لیے مسائل پیدا نہ ہوں۔جس طرح بقول ان کے: اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے اردگرد ایک نئی گریٹ گیم شروع ہو چکی ہے، اور پاکستان کو ایک دفعہ پھر اس ڈرٹی گیم کا حصہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کو اس ڈرٹی گیم سے دور رہنا چاہیے۔ پاکستان کو اس ڈرٹی گیم سے بچانے کا بہترین راستہ تمام مکاتب فکر کے علماء کا اتحاد ہے۔ علماءمتحد ہو گئے توسیاسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی ہونے پر مجبور ہو جائیں گی،اسی طرح یہ بات بھی اندھوں کونظرآرہی ہےکہ اس اتحاد کی راہ میں رُکاوٹ کون ہےاورکیوں ہے؟یہ بات ادارے بھی جانتے ہیں اورخودمیرصاحب بھی،لیکن زبانِ قلم پراس کالاناآسان نہیں۔سومیرصاحب سمیت اکثرتجزیہ کاروں کی یہی مجبوری ہے،اس لیے وہ آدھاسچ بولتے ہیں۔
عیاں راچہ بیاں!ہم صرف میرصاحب کے کالم کی روشنی میں اُن سے چندسوالات کرتے ہیں:
ملی یکجہتی کونسل کوکس نے سبوتاژکیا؟ ملی یکجہتی کونسل نےمقدس ہستیوں کے احترام سمیت اختلافی مسائل کے لیے جوبیانیہ تشکیل دیا تھا،اسے تسلیم کرنے سے کس فریق نےانکار کیا؟
پارہ چنارمیں کس فریق نے پاکستان کاپرچم جلایا؟ سکیورٹی اداروں کوچیلنج دیے، پاکستان کوآگ لگانے کی بات کی. جب طے ہوگیا کہ دونوں فریق جامہ تلاشی دیں گےاورتمام اسلحہ اداروں کے پاس جمع کرائیں گےتوکس فریق نے طے شدہ معاہدے کوماننے سے انکارکیا؟
مقدس شخصیات کی گستاخی کے پے درپے واقعات کس فریق کی طرف سے پیش آتےہیں؟ ان کی سرپرستی کون کرتاہے؟ ان کے خلاف قانون حرکت میں کیوں ںہیں آتا؟
پنجاب اسمبلی سےمنظور ہونےوالے تحفظِ اسلام بل کو ماننے سے کس فریق نے انکارکیا؟
تحفظ ناموسِ صحابہؓ واہلِ بیت بل پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے باوجودقانون کیوں نہ بن سکا؟اس وقت کے صدرڈاکٹرعارف الٰہی علوی نے کن کے کہنے پراس بل کومستردکیا؟
آرمی پبلک اسکول میں طلبہ وطالبات کی سفاکانہ شہادت کے بعد پیغام پاکستان کے نام سے شیعہ سنی ہم آہنگی کوفروغ دینے کے لیے ایک مشترکہ دستاویز تیار کی گئی،اس پردستخط کرنے کے باوجود اس کی دھجیاں کس فریق نے بکھیریں؟ادارےاس فریق سے پیغام پاکستان پرعمل کیوں ںہ کراسکے؟
زیادہ دورکیاجانا،یہ بتائیےکہ آپ نے جس تحریری مباحثے کاآغاز کیاتھااُے کس فریق نے سبوتاژ کیا؟
اگران تمام واقعات ،بلکہ شیعہ سنی ہم آہنگی کی ہرکوشش کوہمیشہ ایک ہی فریق سبوتاژ کرتا رہاہے،جیساکہ ریکارڈ شاہدہے، تواس فریق کوموردِالزام ٹھہرانے سے آپ کیوں کتراتے ہیں؟ کیاآپ جیسے باخبراورذمے دارصحافیوں کایہ طرزِ عمل دوسرے فریق کے دل میں آپ کے لیے نفرت کاباعث نہیں بنے گا؟ کیاآدھاسچ بول کرآپ دوسرے فریق کی حق تلفی نہیں کررہے؟ کیامسئلے کی اصل وجہ سے اغماض برتنے اورکبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ اگرآپ کی دانست میں خطے میں جاری ڈرٹی گیم کوناکام بنانے کایہی واحد حل ہے توآپ بھی حقیقت پسندی کاثبوت دے کرمسئلے کوایڈریس کریں۔اب تک کی آمدہ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد میں نوتعمیرلال مسجداور جامعہ حفصہ کوگرانے کے لیے ادارے حرکت میں آگئے ہیں، کیاہمارے ادارے دونوں فریقوں کی ذمے دارقیادت کوایک میزپربٹھانا چاہیں تونہیں بٹھاسکتے؟ پھرایسا کیوں ںہیں کیاجاتا ہے؟ ایک ذمے دارصحافی ہونے کی حیثیت سے آپ اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں،آپ کے دونوں فریقوں کی اعلیٰ قیادت سے تعلقات ہیں،ان تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں فریقوں کی قیادت کے پاس جائیں ،اپنابیانیہ رکھیں اورانھیں ٹیبل ٹاک پرآمادہ کریں۔اگروقت ہو تو تاریخ کامطالعہ کریں ،خاص طورپراُن حضرات کی روداد پڑھیں جواس مسئلے کے حل کے لیے کبھی ذاتی حیثیت میں اورکبھی حکومت کی طرف سے،سرگرم رہےپھرپیچھے ہٹنے پرمجبورہوئے۔جب تک مسئلےکے محرکات کادرست تجزیہ نہ کیاجائے،مسئلہ حل نہیں ہوتا۔غلط یانیم تشخیص کے نتیجے میں دی جانے والی دوا،شفا سے زیادہ مرض میں اضافے کاسبب بنتی ہے۔
تبصرہ لکھیے