حالانکہ میڈیا کا کام قاری ، سامع اور ناظر کو باخبر رکھنا ہے۔مگر پاکستان میں ایک عام آدمی ملٹی چینل دنیا سے پہلے جس قدر باخبر تھا آج درجنوں طوطا مینا چینلوں اور اخبارات کی موجودگی میں اسی قدر بے خبر ہے۔کنوئیں کا مینڈک بننے کا جہاں نقصان ہے وہیں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی خیالی جنت میں اطمینان سے پاؤں پسارے آلکسی کے مزے لے سکتے ہیں اور فرض کرسکتے ہیں کہ ہمارے کنوئیں کے باہر بھی سکھ چین ہے۔
عالمی بینک کی تازہ سہہ ماہی رپورٹ کے مطابق اس وقت مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ کی ایک تہائی آبادی ( ستاسی ملین نفوس ) جنگوں سے براہِ راست متاثر ہے۔لیبیا ، یمن ، عراق اور شام میں زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو جاری جنگ کی تباہ کاری سے بچ گیا ہو۔اس وقت ایک کروڑ پینتیس لاکھ شامی ، بیاسی لاکھ عراقی ، دو کروڑ گیارہ لاکھ یمنی اور چوبیس لاکھ لیبیائی ہر طرح کی انسانی امداد کے مستحق ہیں۔
سعودی قیادت میں قائم جنگی اتحاد کی کاروائیوں سے پہلے یعنی ڈیڑھ برس قبل یمن کی آدھی آبادی خطِ غربت تلے زندگی کاٹ رہی تھی۔آج یمن کی اسی فیصد آبادی انتہائی کسمپرسی تلے جوج رہی ہے۔اسی طرح شام اور عراق کی فی کس آمدنی میں گذشتہ پانچ برس کے دوران بالترتیب تئیس اور اٹھائیس فیصد کمی ہوئی ہے اور سالانہ قومی آمدنی بالترتیب چودہ اور سولہ فیصد تک سکڑ گئی ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ چار ممالک میں جاری بحران کے سبب گذشتہ پانچ برس کے دوران علاقائی معیشت کو کم ازکم چالیس ارب ڈالر کا بلا واسطہ نقصان پہنچا ہے۔
یہ نقصان اس دباؤ کے علاوہ ہے جو جنگ زدہ ممالک کے ہمسائیوں کو پناہ گزینوں کی بھاری تعداد میں آمد کے سبب برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔مثلاً اردن جو کہ پہلے ہی ایک غریب ملک ہے۔اسے ساڑھے چھ لاکھ شامی پناہ گزینوں کے سبب ڈھائی ارب ڈالر سالانہ اضافی اخراجات کا سامنا ہے۔یعنی حکومت کو سالانہ جو بھی آمدنی ہوتی ہے اس کا پچیس فیصد پناہ گزینوں کی دیکھ بھال پر خرچ ہو رہا ہے۔ شامی بحران کے اثرات کے سبب ترک ، مصری ، اردنی اور لبنانی شہریوں کی فی کس آمدنی میں سالانہ ڈیڑھ فیصد تک کمی ہوئی ہے۔حالانکہ ان ممالک کے عام شہری کا بظاہر شامی خانہ جنگی سے کوئی براہِ راست لینا دینا نہیں۔
گو شامی پناہ گزینوں کی شکل میں ترکی اور لبنان کے متعدد زمینداروں اور کاروباریوں کو سستی افرادی قوت میسر آگئی ہے مگر سستی افرادی قوت کا نقصان یہ ہوا کہ مقامی مزدوروں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی۔ پچھلے پانچ برس کے دوران دس لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں پر اخراجات کے سبب تیل کی قیمت میں کمی کے جو فوائد لبنانی معیشت کو حاصل ہونے تھے وہ نہ صرف غتر بود ہوگئے بلکہ قومی آمدنی میں لگ بھگ تین فیصد سالانہ کی کمی کے سبب پچھلے چار برس کے دوران مزید دو لاکھ لبنانی انتہائی غریب طبقے میں شامل ہو گئے اور اس وقت مقامی سطح پر بے روزگاری کی شرح بیس فیصد سے زائد ہے۔
اگر جنگ سے بلاواسطہ متاثر ہونے والوں پر اتنا دباؤ ہے تو سوچئے کہ جنگ سے براہِ راست متاثر ہونے والے کس کیفیت میں ہوں گے ؟ لبنان میں اس وقت جو شامی پناہ گزین ہیں ان میں بے روزگاری کا تناسب بانوے فیصد تک ہے۔شام کی آدھی آبادی ( بارہ ملین ) اس وقت اندرون یا بیرونِ ملک دربدر ہے۔اسی طرح عراق اور یمن میں پینسٹھ لاکھ انسان اندرونِ ملک راندہِ درگاہ ہیں۔لیبیا میں گھروں سے نکلنے والوں کی تعداد چار لاکھ پینتیس ہزار ہے۔ان میں تین لاکھ پناہ گزینوں کی عمر پندرہ برس سے کم ہے۔
مگر امید کی کرن باقی رہتی ہے۔۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ کے نیم دائرے میں واقع جو چار ممالک جنگوں کی لپیٹ میں ہیں وہ چاروں تیل کی پیداوار والے ممالک کہلاتے ہیں ( عراق اور لیبیا بہت زیادہ اور شام و یمن کم تیل پیدا کرتے ہیں )۔
تیل چونکہ نقد آور دولت ہے لہذا ایسے ممالک کی اقتصادی بحالی بھی غیر تیل ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ممکن ہے۔جیسے انیس سو نوے اکیانوے میں عراقی قبضے سے نکلنے کے بعد کویتی معیشت کی مکمل بحالی میں سات برس اور سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد قبل از جنگ سطح کی معاشی بحالی میں ایک برس کا عرصہ لگا۔لبنان کو تیل کی دولت میسر نہیں لہذا اسے ستر کی دھائی سے نوے تک جاری رہنے والی پندرہ سالہ خانہ جنگی کے سماجی و اقتصادی اثرات سے نکلنے میں اگلے بیس برس لگ گئے۔
تاہم تیل کی عالمی قیمت بھی اگر مسلسل گرتی رہے تو پھر آئیل سیکٹر میں بین الاقوامی سرمایہ کاری اور معیشت کے دیگر شعبوں کو قابل برآمد سطح تک لائے بغیر صرف تیل سے معاشی بحالی کی تھیوری نہیں چلے گی۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جمہوری فضا میں آمرانہ فضا کے مقابلے میں ترقی کی شرح زیادہ تیز ہوتی ہے۔گویا دو ہزار دس اور گیارہ میں اگر تیونس سے اٹھنے والی عرب اسپرنگ تحریک مشرقِ وسطیٰ میں فروغِ جمہوریت کا سبب بن جاتی تو آج عرب اسپرنگ سے فیضیاب ممالک میں جنگوں اور خانہ جنگیوں کی عدم موجودگی میں سالانہ قومی آمدنی کی اوسط شرح موجودہ تین فیصد کے بجائے پانچ برس کے اندر سات اعشاریہ آٹھ فیصد سالانہ تک پہنچ جاتی ( یعنی چین کی سالانہ شرحِ نمو کے برابر)۔
عالمی بینک کا خیال ہے کہ مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ کی عرب بربر معیشتوں کو اگر تیل کی محتاجی سے آزاد کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا مقصود ہے تو جلد یا بدیر ایسا نظام اختیار کرنا ہی ہوگا جس میں عام آدمی بھی خود کو شریک سمجھے۔
کوئی بھی نظام بھلے جتنا بھی عادلانہ و مستحکم دکھا کر بیچنے کی کوشش کی جائے اگر اس میں عوام کی حقیقی شرکت نہ ہو تو ایسا نظام بیرونی امداد اور عارضی شارٹ کٹ اقتصادی کرتبوں کی بنیاد پر کچھ عرصے کے لیے آگے بڑھتا ہوا دکھایا تو جا سکتا ہے ، لوگوں کا دل بھی بہلایا جا سکتا ہے مگر بیساکھیاں ہٹتے ہی نظام دھڑام سے گر پڑتا ہے۔
چنانچہ نظام کو دھڑام سے بچانے کے لیے جبر کی مقدار بھی حسبِ ضرورت مسلسل بڑھانا پڑتی ہے۔تاہم جس طرح ایک مرحلے پر آ کر فورتھ جنریشن اینٹی بائیوٹک بھی مریض پر کوئی اثر نہیں کر پاتی اسی طرح جبر بھی ایک خاص مرحلے کے بعد کسی بھی مصنوعی سیاسی و معاشی نظام کو سہارا دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔
یوں سمجھئے کہ عوام پانی کی طرح ہیں۔پانی سو درجہ سینٹی گریڈ پر ابلنے لگتا ہے اور اس حد کے بعد اسے جتنا گرم کیا جائے گا وہ ہرگز نہیں ابلے گا بلکہ تیزی سے وہ اپنی ماہیت تبدیل کرتے ہوئے بھاپ بن کر اڑنے لگے گا۔یہ بات ایک پرائمری اسکول کا بچہ بھی جانتا ہے۔اگر نہیں کوئی جانتی تو حکمرانی نہیں جانتی۔اور اسی انجانے میں حکمران کے ساتھ ہاتھ ہو جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے