ہوم << پرویز ہودبھوئے کی امام غزالی اور جماعت اسلامی پر تنقید ، ایک جائزہ - محمد عبید

پرویز ہودبھوئے کی امام غزالی اور جماعت اسلامی پر تنقید ، ایک جائزہ - محمد عبید

پروفیسر پرویز ہودبھوئے کا دعویٰ ہے کہ غزالی کے مطابق چونکہ علت اور معلول یعنی کہ (Cause اور Effect) میں کوئی لازمی تعلق نہیں ہے اور جماعت اسلامی اور جنرل ضیاء الحق نے بچوں کو یہ پڑھانا شروع کیا تھا کہ Oxygen اور Hydrogen کے ملنے سے پانی قانون قدرت کے بجائے خدا کی مرضی سے بنتا ہے، تو یہ دونوں رویے غیر سائنسی اور بچگانہ ہیں.

میں اس دعویٰ کا ایک سوال کے ذریعے رد کرنا چاہتا ہوں۔
ہائڈروجن ایک inflammable چیز ہے یعنی کہ آگ لگاتا ہے۔ اسی طرح آکسیجن Oxidizer ہے یعنی کہ آگ کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے لیکن ان دونوں کے ملنے سے پیدا ہونے والا پانی آگ کو بجھاتا ہے؟ کیوں؟ آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ملنے سے بننے والی چیز میں وہ خصوصیت کیسے پیدا ہوئی، جو ان میں سے کسی ایک میں انفرادی طور پر موجود نہیں ہے؟ کیا ایک چیز کسی ایسی چیز کو پیدا کر سکتی ہے جس کی اس میں طاقت موجود نہیں ہے؟

ان چیزوں کو ایک مکالمہ سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اسد) اس کے پیچھے قوانین قدرت ہے۔
ابرار) اس کے پیچھے خدا ہے۔
اسد) اگر اس کے پیچھے خدا ہے تو خدا کو دکھائیں؟
ابرار) اگر اس کے پیچھے قوانین قدرت ہے تو وہ دکھائیں؟
اسد) ان دو سے پانی کا بننا کیا ہے؟ یہی چیز ہی تو قوانین قدرت ہے۔
ابرار) نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم صرف آکسیجن اور ہائیڈروجن کو ملتا دیکھ کر اس سے پانی بنتا دیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ آپ کے قوانین قدرت کہاں ہیں؟ دکھائیں ذرا؟ مجھے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
اسد) آپ قانون قدرت کو دیکھنے کی ضد کیوں کر رہے ہیں۔ کیا اس کا اثر آپ کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ اس کی وجہ سے ہی تو پانی بن گیا ہے؟
ابرار) نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان چیزوں سے پانی کا بننا خدا کا اثر ہے۔ یہ قوانین قدرت کا اثر نہیں ہے۔
اسد) اچھا وہ خدا دکھائیں ذرا؟
ابرار) یہ خدا کا اثر ہی تو ہے جسے آپ نے دیکھا ہے۔ آپ خدا کو دیکھنے کی ضد کیوں کر رہے ہیں؟؟
اسد) ہاہاہا اب آپ خدا کو دکھا نہیں سکتے ہیں تو ایسا بول رہے ہیں۔
ابرار) جی ہاں بالکل اسی طرح جس طرح آپ قوانین قدرت کو نہیں دکھا سکتے ہیں، اسی طرح میں خدا کو نہیں دکھا سکتا ہوں۔
اسد) ان چیزوں میں اثر قوانین قدرت کی وجہ سے ہی ہے۔
ابرار) نہیں ایسا خدا کی وجہ سے ہی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ یہ دونوں افراد اس خاص قسم کے عمل (پانی کے بننے) کو ایک ایسی چیز کے مرہون منت ہوتا ہوا دکھا رہے ہیں جس کو یہ دکھا نہیں سکتے ہیں بلکہ صرف Infer کر رہے ہیں۔ اسد قوانین قدرت نہیں دکھا سکتا ہے اور ابرار خدا کو دکھا نہیں سکتا، یہ چیز ان دونوں کی محض Inferences ہے۔ اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کس کی Inference زیادہ Valid ہے۔

اسد) اگر یہ خدا نے کیا ہوتا تو یہ کبھی بھی یکساں اور ہر وقت ایسا یعنی کہ ایک جیسا نہیں ہوتا، بلکہ یہ کبھی ایک سا ہوتا تو کبھی دوسری طرح ہوتا؟
ابرار) کیوں؟
اسد) کیا مطلب کیوں؟
ابرار) مطلب کہ اگر یہ خدا کا اثر ہے تو اسے ہر وقت مختلف اور تغیر کا شکار کیوں ہونا چاہیے؟
اسد) وہ اس لیے کہ اس کو ایک ذات کنٹرول کرتی ہے تو وہ کبھی اس کو ایک طرح سے کرے گی تو کبھی دوسری طرح سے۔ وہ ہمیشہ اس کو ایک طرح سے ہی کیوں کرے گی؟
ابرار) آپ یہ بات خود سے فرض کر رہے ہیں کہ اگر یہ خدا کی طرف سے ہوتا تو یہ تبدیل اور متغیر ہوتا رہتا لیکن خدا نے تو ایسا کبھی نہیں کہا ہے۔ آپ خدا پر یہ غلط چیز فرض کیوں کر رہے ہیں؟
اسد) چلیں آپ ہی بتا دیں کہ اگر یہ خدا کی طرف سے ہے تو ایسا ہی کیوں ہے؟
ابرار) خدا خود کہتا ہے کہ وہ ہر ایک چیز کو ایک ترتیب اور اندازہ سے کرتا ہے اور یہ چیز ایک ترتیب اور اندازہ سے ہو رہی ہے تو یہ خدا کی بات کو ہی ظاہر کر رہی ہے.
ابرار) نہیں، یہ قوانین قدرت کو ہی ظاہر کرتی ہے جس میں تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر خدا یہ کرتا تو وہ اس کو تبدیل کر سکتا ہے، اور یہ چیزیں تبدیل اور متغیر ہی ہوتی رہتی، نہ کہ ایک جیسے رزلٹ کا سبب بنتی۔
ابرار) آپ پھر خدا پر ایک بات فرض کر رہے ہیں جو خدا نے کبھی نہیں کی ہے۔ خدا نے یہ کب کہا کہ وہ زمین و آسمان کی چیزوں کو کبھی ایک طرح سے کرے گا تو کبھی دوسری طرح سے جو آپ اس کو یہ بات منسوب کر رہے ہیں؟ بتائیں ذرا؟
اسد) تو کیا اگر یہ خدا کے کنٹرول میں ہے تو وہ اس کو کبھی بھی تبدیل نہیں کرےگا؟
ابرار) جی خدا اس چیز کو تبدیل نہیں کرے گا کیونکہ خدا نے ہمیں اپنے کلام میں انھی چیزوں یعنی کہ قوانین قدرت کو کھوجنے سے خدا کے پہچاننے کی دعوت دی ہے کہ کائنات اور اپنے آپ میں تحقیق کر کے مجھ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ باقی یہ ہمارے لیے خدا کی پہچان کا ذریعہ ضرور ہے لیکن خدا پر مکمل فرض نہیں ہے، سو کچھ بہت ہی خاص مواقع پر خدا اپنی قدرت دکھانے کے لیے ان چیزوں کو Suspend کر سکتا ہے وگرنہ اس کی تبدیلی کبھی بھی نہیں ہوگی۔ یہ مواقع بھی سینکڑوں سال میں کبھی کبھار آتے ہیں۔ باقی خدا نے اس کو ہرگز رینڈم نہیں بنایا ہے۔
اسد) میں تو اسے قوانین قدرت ہی مانتا ہوں جو کہ یہ سب کر رہے ہیں، کیونکہ خدا کی طرف سے ہونے میں اسے تبدیل ہونا چاہیے تھا؟ اب آپ نہیں مان رہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا ہوں؟
ابرار) میں اندھے گونگے قوانین قدرت کا ہر بار یکساں اور ایک جیسا رزلٹ دینا کیسے مان لوں؟ اگر یہ کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے تو اس کو رینڈم ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ آپ ارتقاء کو رینڈم مانتے ہیں۔ اگر یہ رینڈم ہوتا تو اس کو ہر بار ایک جیسا رزلٹ نہیں دینا چاہیے تھا۔ اس کا ہر بار ایک جیسا رزلٹ دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ کسی کے کنٹرول میں ہے۔ اگر یہ رینڈم ہوتا اور کسی کے کنٹرول میں نہ ہوتا تو کبھی یہ پانی بناتا اور کبھی نہ بناتا اور کسی ترتیب کو فالو نہ کرتا ہوتا، اس لیے میں اسے خدا کا طریقہ ہی مانتا ہوں۔

مکالمہ کا نتیجہ
اس مکالمہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی چیز کو خدا کا کام یا قوانین قدرت ماننا محض ایک Inference ہے جو کہ ایک انسان کے دماغ پر منحصر ہے۔ ان دونوں مؤقف میں سے آپ جسے بھی قبول کرتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔ ان میں سے کون سا درست ہے؟ اس بات پر فلسفیانہ گفتگو ہو سکتی ہے. کون سی بات Occam's Razor کے خلاف ہے، کون سی بات غیر ضروری Assumptions رکھتی ہے، کون سی بات عقلی ہی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ پر فلسفہ کے نکتہ نظر سے گفتگو ہوسکتی ہے۔ میرا اس خاص مکالمہ سے مقصود آپ کو کوئی مؤقف قبول کروانا نہیں ہے، لیکن صرف یہ باور کرانا ہے کہ اگر کوئی انسان ان میں سے کوئی سا بھی مؤقف اختیار کرتا ہے تو وہ غیر سائنسی نہیں ہے، بلکہ یہ چیز سائنس سے ماوراء فلسفہ اور مذہب کے اوپر منحصر ہے۔

سائنس اور الحاد ایک دوسرے کے لیے ضروری نہیں ہے
سائنسی ذہن رکھنے کے لیے الحاد کو Presuppose کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ان چیزوں کو خدا کا کام اور اس کے ارادے کا اظہار بھی سمجھتا ہے تو وہ اس وجہ سے سائنس کا دشمن نہیں بن جاتا ہے۔ وہ الحاد کا دشمن ضرور ہوتا ہے لیکن سائنس کا دشمن نہیں ہوتا ہے، اور الحاد کے دشمن کو سائنس کا دشمن یا مخالف سمجھنا الحاد کی طرف جھکاؤ رکھنے اور اسے پسند کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔

ضیاء الحق/جماعت اسلامی/ہودبھائی کا فیصلہ
جماعت اسلامی یا ضیاء الحق نے اگر پانی کے بننے کو خدا کے ارادہ کا اظہار بتلایا ہے تو وہ الحاد کے دشمن ہوسکتے ہیں، لیکن اس طرح سے وہ سائنس کے دشمن ہرگز نہیں بن جاتے ہیں، لیکن پروفیسر پرویز ہودبھائی کا ان کو اس بنیاد پر سائنس دشمن سمجھنا اسے ضرور الحاد کا حمایتی بنا دیتا ہے۔

غزالی و فلاسفہ
اسی طرح اسلام کے شروع کے زمانہ میں ایک گروہ گزرا ہے جس کو فلاسفہ کہا جاتا تھا۔ ان کے کچھ نظریات مندرجہ ذیل تھے۔

فلاسفہ کا موقف
1) ان افراد کے مطابق علت (Cause) اور معلول (Effect) میں لازمی Necessary (جس کے خلاف ہونا ناممکن ہے) تعلق ہوتا ہے۔ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ خدا نے قوانین قدرت تخلیق کر لیے ہیں اور اب یہ کائنات ان ہی قوانین کے تحت چل رہی ہے۔
2) ان کے مطابق مختلف چیزوں میں پیدائشی طور پر ہی Active اور Passive خصوصیات موجود ہے اور وہ اس کا اظہار کرتی ہے۔
3) آگ میں جلانے کی صلاحیت ہے اور یہ چیز ایک Active خصوصیت ہے اور اسی طرح روئی میں جلنے کی صلاحیت ہے جو ایک Passive خصوصیت ہے۔
4)ان کے مطابق اب خدا تعالیٰ کو کائنات میں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
5) ان میں سے "کچھ" اس حد تک چلے گئے تھے کہ ان کے مطابق خدا بھی اب ان خصوصیات کو تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔
6) یعنی اگر روئی اور آگ ایک دوسرے کے قریب آئے گی تو آگ روئی کو لازمی جلائے گی. لازمی کا مطلب ہے کہ اس کے خلاف ہونا بالکل ناممکن ہے۔ اس کے خلاف کبھی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
7) ان میں سے کچھ انتہا کو چلے گئے تھے اور ان کی باتوں سے یہ لگنے لگا تھا کہ خدا بھی ان چیزوں میں موجود مختلف قسم کی خصوصیات میں حائل نہیں ہو سکتا ہے۔

فلاسفہ پر اعتراضات
ان کے نظریات کو غزالی اور دیگر علماء نے چیلنج کیا ہے اور ان کا رد کیا ہے۔ ان علماء کے مطابق فلاسفہ کا یہ تصور کہ علت اور معلول میں لازمی تعلق ہے یعنی کہ آگ اور روئی کے ملنے سے روئی کا جلنا لازمی ہے۔ یہ چیز خدا کی طاقت کو چیلنج کر رہی ہے۔ اگر آگ اور روئی کے ملنے کے نتیجے میں روئی نے لازمی جلنا ہے اور اس چیز کو خدا بھی نہیں روک سکتا ہے تو یہ خدا کی طاقت کو کم ظاہر کرتی ہے اور ایسا ماننا خدا کی صفت "قدیر" یعنی ہر چیز پر قادر ہونے کی خصوصیت کا واضح انکار اور شرک ہے۔ یہ شرک ان معنوں میں ہے کہ آپ خدا کے علاؤہ بھی کسی چیز کو طاقتور مان رہے ہیں اور یہ مان رہے ہیں کہ کسی چیز میں اتنی طاقت بھی ممکن ہے کہ اس کے سامنے خدا بے بس ہے۔ آگ کے روئی کو لازمی جلانے کا یہی مطلب بنتا ہے کہ خدا بھی اس کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے جو کہ آگ کو خدا کے مقابلے میں طاقتور سمجھنے کا اظہار ہے اور ایک قسم کا شرک ہے۔ ان لوگوں کو اشاعرہ ماتریدیہ اور غزالی نے جواب دیا ہے۔ غزالی کو اکثر اوقات اشعری بھی تصور کیا جاتا ہے۔

امام غزالی کا موقف
غزالی نے فلاسفہ کے اس موقف کو چیلنج کیا ہے اور اس کے خلاف کئی قسم کے دلائل دیے ہیں۔ ان دلائل میں سے محض ایک Ocassionalism ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ فلاسفہ کے رد میں اور ان کے اوپر بیان کردہ موقف کے خلاف غزالی نے متبادل کے طور پر صرف و صرف Ocassionalism کو ہی پیش نہیں کیا تھا بلکہ کچھ اور قسم کے متبادل نظریات بھی بیان کیے تھے لیکن ان میں سے یہ والی چیز معروف ہوئی ہے۔

کیا غزالی Ocassionalist تھے؟
اگرچہ اس بات پر بھی ڈیبیٹ ہے کہ کیا غزالی واقعی میں Ocassionalist تھا بھی یا نہیں؟ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ غزالی نے فلاسفہ کو یہ پوزیشن بطور متبادل بتلائی ہے اور خود وہ اس پوزیشن کا ماننے والا نہیں تھا۔

غزالی کیا سوچتے تھے
1) امام غزالی کا یہ ماننا تھا کہ علت (Cause) اور معلول (effect) کے درمیان تعلق لازمی Necessary (جس کے خلاف ہونا ناممکن ہے) نہیں ہے بلکہ یہ تعلق محض ممکن یعنی کہ Possible (جس کے خلاف ہو سکتا ہے) ہے اور مختلف چیزوں میں خدا سے ماوراء یعنی اوپر کوئی بھی طاقت وجود نہیں رکھتی ہے۔
2) اس کا مطلب ہے کہ آگ کا روئی کو جلانا محض ممکن ہے لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔
3) اس ممکن لفظ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آگ روئی کو جلائے گی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آگ کا روئی کو جلانا اس کے لیے فرض (Obligation) نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے ارادہ (Will) پر منحصر ہے۔
4) اگر خدا یہ چاہے اور آگ کو روئی کے جلانے کی اجازت دے دیں تو آگ روئی کو جلا دیگا لیکن اگر خدا نے ایسا نہیں چاہا تو آگ کے اندر خدا سے ماوراء کوئی اپنی طاقت نہیں ہے جس سے وہ روئی کو جلا دیں۔
5) غزالی کا مقصد خدا کو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ثابت کرنا تھا کہ جس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔
6) اس بات کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر خدا ہر چیز پر طاقت رکھتا ہے تو وہ چیزوں کو ایک ترتیب اور ایک نظم یعنی Pattern اور Regularities کے ساتھ نہیں کریگا اور دنیا ایک بے ترتیب اور بدنظمی کی حالت میں ہونی چاہیے ہیں۔
7) خدا نے ہم انسانوں کو ترتیب و نظم یعنی Patterns اور Regularities سے اپنے آپ کو پہچاننے کی دعوت دی ہے سو وہ اس دنیا کو ترتیب و نظم سے ہی چلائے گا۔
8) خدا کی اس خاص ترتیب و نظم کو قوانین قدرت یعنی Laws of Nature کہتے ہیں جس سے یہ کائنات چل رہی ہے لیکن فلاسفہ کے برخلاف غزالی کے موقف میں یہ خدا پر ہر دم منحصر ہے اور یہ خدا کی عمومی عادت ہے۔
9) خدا محض کچھ موقعوں میں ہی اس کے خلاف کام کر دیتا ہے تاکہ وہ یہ ظاہر کر سکیں کہ وہ ان اسباب کا محتاج نہیں ہے۔
10) غزالی کے اس موقف سے آپ مکمل اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ ہرگز بھی سائنس کی مخالفت نہیں ہے۔
11) کانٹ کے مطابق حقیقی دنیا (Noumena) کو جاننا ناممکن ہے۔ اسی طرح ہیوم کے مطابق بھی علت اور معلول کا تعلق مشاہداتی ہے اور لازمی اور حقیقی سچائی نہیں ہے۔ ان باتوں کو بھی اگر Strawman کیا جائے تو سائنس کے خلاف ثابت کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہمارے محترم پروفیسر پرویز ہودبھائی غزالی کی باتوں کو Strawman کر کے اسے سائنس کے خلاف باور کروا رہے ہیں۔

نتیجہ
ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ غزالی کا فلاسفہ سے اختلاف اس بات پر تھا ہی نہیں کہ وہ سائنس کے خلاف تھے بلکہ ان کا آپس میں اختلاف ایک فلسفیانہ چیز پر تھا جس میں آپ کسی کے موقف کو بھی مان سکتے ہیں۔ غزالی نے کھلم کھلا سائنس کو ثواب کا کام یعنی کہ فرض کفایہ یعنی کہ Communal Obligation کہا ہے اور انہوں نے تو ان لوگوں پر بھی تنقید کی ہے جو فلاسفہ کے ضد میں ان کی مستند چیزوں جیسے ریاضی اور سورج اور چاند گرہن یعنی سائنس کی باتوں پر تنقید کرتے ہیں۔ غزالی کو سائنس کا دشمن سمجھنا ظلم عظیم اور شدید ترین قسم کی بددیانتی ہے۔

اشاعرہ اور ماتریدیہ کا تفصیلی موقف نیچے موجود ہے۔

اشاعرہ کا مؤقف
1) اس تصور کے مطابق دنیا کی چیزوں میں کوئی اصلی تاثیر موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قوانین قدرت وجود رکھتے ہیں۔
2) مادہ سے ہمیں جو کچھ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے یہ محض فریب اور آنکھوں کا دھوکہ ہے۔
3) دنیا میں موجود ہر ایک چیز دراصل کچھ چھوٹے چھوٹے یونٹس سے بنی ہے۔
4) یہ یونٹس اپنی اصل میں ایک دم یکساں ہے اور ان میں کوئی بھی خوبی اور طاقت موجود نہیں ہے۔
5) اگر تمام چیزیں ایک جیسی یونٹس سے بنی ہے تو پھر ہمیں چیزیں مختلف کیوں نظر آتی ہے؟ یعنی کہ اگر آگ اور لکڑی ایک جیسی چیزوں سے بنے ہیں تو ان کی علیحدہ بناوٹ اور خصوصیات کیوں ہے؟
6) قوانین قدرت سے یہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ قوانین تو کوئی اصل وجود ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ محض کچھ چیزوں کے ایک خاص Pattern اور Regularities سے ہونے کا زبانی اظہار پے۔
7) کسی چیز میں کوئی بھی تاثیر دراصل ہماری اختراع ہے
8) جب ہم کسی چیز کو ایک دوسرے چیز سے ہوتا ہوا بار بار دیکھتے ہیں تو ہم دوسری کو پہلے کا اثر یا پہلے کو دوسرے کی وجہ بتلا دیتے ہیں لیکن حقیقت میں کوئی چیز کوئی بھی تاثیر نہیں رکھتی ہے۔
9) ان کے مطابق دراصل خدا ہی کائنات اور اس میں ہو رہے ہر چیز کی واحد "وجہ حقیقی" ہے۔
10) جب لکڑی جلتی ہے یا آگ جلاتی ہے تو دراصل یہ ان کی اپنی تاثیر کی بدولت نہیں بلکہ خدا کی وجہ سے ہیں۔ اگر خدا نہ چاہے تو ایسا نہیں ہوگا کیونکہ آگ اور لکڑی ایک جیسے ہی یونٹس سے بنی ہے جن میں شعور نہیں کہ وہ ایک جگہ آگ بن جائے اور دوسری جگہ لکڑی اور نہ ہی ان پارٹیکلز میں ان کی صلاحیتوں یعنی جلنے اور جلانے کی کوئی معلومات موجود ہے سو یہ سب کچھ خدا کی طاقت سے ہوا ہے۔
11) یہ سارا مادہ جو ہمیں اردگرد نظر آ رہا ہے اپنے وجود کے لیے خدا کے اوپر منحصر ہے۔
12) خدا ہر لمحہ میں کائنات کے اندر موجود تمام مادہ کے یونٹس کو ختم کر کے کسی دوسری ترتیب میں تبدیل کر دیتا ہے۔
13) ان کے نزدیک وقت بھی یونٹس سے بنا ہے اور کوئی ماضی یا مستقبل وجود نہیں رکھتا ہے۔
14) خدا ہر لمحہ ان یونٹس کو ختم کر کے دوسری ترتیب میں پیدا کر رہا ہے یعنی خدا ہر لمحہ کائنات کو ختم کر کے دوبارہ بنا رہا ہے۔
15) ہمیں چیزوں میں تسلسل اس لیے نظر آتا ہے کہ خدا بے ترتیبی سے کام نہیں کرتا ہے بلکہ ایک ترتیب سے کام کرتا ہے۔
16) اپنی پوری زندگی میں چیزوں کو ایک خاص اثر دکھانے کے سبب ہم خدا کی کچھ ترتیبات کو سمجھ گئے ہیں جنہیں ہم قوانین قدرت کہ دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ صرف خدا کی عادت ہے۔ یعنی کہ ہم جو جانتے ہیں یہ استقرائی نتیجہ ہے کوئی اٹل حقیقت نہیں ہے۔
17) خدا کسی قوانین قدرت کا پابند نہیں ہے۔ اگرچہ خدا کی عادات رینڈم نہیں ہے لیکن وہ کسی بھی لمحہ اس کو تبدیل کرنے پر مکمل قادر ہے۔
18) معجزات کوئی انہونی یا قوانین قدرت کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ خدا کی طاقت کا براہ راست اظہار ہے۔
19) خدا کائنات کو کمپیوٹر پر چل رہی مختلف تصویروں کی ویڈیو کی مانند چلا رہا ہے جو ایک کے بعد ایک سامنے آتی ہے اور جن میں صرف Pixels کی ترتیب ہی مختلف ہے۔ معجزہ صرف ایک علیحدہ تصویر ہے جس میں خدا نے محض Pixels کی ترتیب بدل دی ہے۔
20) یہ ہمارے لیے یہ انہونی بات ہے کیونکہ اس تصویر میں مختلف چیزیں موجود ہے لیکن خدا کے لیے ایسا نہیں ہے۔

ماتریدیہ کا موقف
1) خداوند نے قوانین قدرت تخلیق کر دیے ہیں اور مختلف چیزوں میں ایک خاص تاثیر رکھ دی ہے۔
2) انہی قوانین کی وجہ سے یہ کائنات قائم ہے اور چل رہی ہیں۔
3) لیکن یہ قوانین اور چیزوں میں یہ تاثیر خدا پر منحصر ہے۔ خدا کی مرضی کے بغیر یہ قوانین اور چیزیں اپنی تاثیر دکھانے سے قاصر ہے۔
4) ان ساری چیزوں کو اپنی تاثیر کے لیے ہر دم خدا کی اجازت درکار ہے اور کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی کے تحت ہی ہوتا ہے۔

5)اگرچہ لکڑی میں جلنے اور آگ میں جلانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ان میں یہ صلاحیت خدا کی پیدا کردہ ہے اور ان کا اس صلاحیت کا لگاتار اظہار بھی خدا کی مرضی پر منحصر ہے اور خدا اس کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
6) دنیا میں ہم جو کچھ بھی ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ Secondary causality ہے اور خدا ہی ان سب قسم کی چیزوں کا Primary Cause ہے۔
7) ہماری کائنات خدا کی مداخلت کے بغیر وجود نہیں رکھ سکتی ہے کیونکہ یہ سیکنڈری Causality خدا پر منحصر ہے۔ دنیا کی چیزیں خدا کی اجازت اور مدد کے بغیر اپنا اثر نہیں دکھا سکتی ہے۔ اگرچہ ان میں صلاحیتیں موجود ہوتی ہے جیسا کہ آگ میں جلانے کی اور اس طرح لکڑی میں جلنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن حقیقت میں ان کا اظہار ہونا خدا کی مرضی پر ہی منحصر ہے اور ایسا تب ہوتا ہے جب خدا کی اجازت موجود ہوتی ہے۔
8) معجزات کے دوران خدا ان چیزوں سے اپنی مرضی کو دور کر لیتا ہے جس کی وجہ سے یہ چیزیں اپنا اثر کھو دیتی ہے۔
9) اس کائنات میں سب کچھ خدا کی مرضی سے ہی ہو رہا ہے۔
10) آپ کی گاڑی کے انجن میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ آپ کو شکردرہ تک لے کر آئیں لیکن یہ صلاحیت آپ کے ارادہ اور طاقت کی محتاج ہے۔ اسی طرح کائنات کی چیزوں میں مختلف اثرات اور خوبیاں تو موجود ہوتی ہے لیکن ان کا ظہور خدا کی طاقت اور ارادہ پر منحصر ہے۔ معجزات کے وقت خدا اس کی اجازت اور طاقت عطا نہیں کرتا ہے۔

یہ دونوں موقف مذہبی و فلسفیانہ ہے اور ان میں سے کوئی بھی سائنس کے خلاف نہیں ہے۔ سائنس محض ایک علم کا نام ہے جس کے طریقے کار کے بنانے میں مذہبی لوگ شامل ہے۔ مذہبی لوگ سائنس کے خلاف نہیں ہے اور اگر ہم خدا کو ایک طاقتور ذات اور سب کچھ کرنے والا مانتے ہیں تو وہ ہم بہت Nuanced طریقہ سے یہ چیز واضح کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب اگر اس بات پر ہم سے مناظرہ کرنے کا کہتے ہیں تو ہم حاضر ہے لیکن ہمیں غیر سائنسی کہنا یا سائنس کا دشمن سمجھنا ہماری توہین ہے۔

پروفیسر کی ہود بھوئے کی بددیانتی
پروفیسر کہتا ہے کہ میں نے غزالی کا مؤقف ابن رشد کی کتاب The Incoherence of Incoherence سے سمجھا ہے جو کہ غزالی کی رد میں لکھی گئی کتاب ہے۔ یہ ایک بڑی بددیانتی ہے کہ آپ کسی کا مؤقف اس کے کسی مخالف سے سمجھیں۔ آگے پروفیسر کہتا ہے کہ مجھے لوگ کہتے ہیں کہ یہ پڑھو وہ پڑھو لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مجھے تو اس تصور سے ہی مسئلہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پروفیسر نے غزالی کے مؤقف کو صحیح سے سمجھنے کی کوشش کی ہی نہیں ہے۔ پروفیسر کہتا ہے کہ تہافت کا مطلب Rejection ہوتا ہے تاکہ وہ یہ باور کروا سکیں کہ غزالی نے فلسفہ کو reject کیا تھا جبکہ تہافت کا اصل مقصد Incoherence ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ غزالی نے یہ کتاب خود ہی فلسفیانہ طرز کے رد میں لکھی ہے۔

( نوٹ : میں جنرل ضیاء الحق کا فین نہیں ہوں اور نہ ہی اس کو سپورٹ کرتا ہوں، لیکن یہ معاملہ میرے مذہب کا تھا، اس لیے جواب دیا ہے)