قلم ایک عجب شے ہے۔ یہ کاغذ پر محض سیاہی نہیں انڈیلتا، بلکہ تاریخ رقم کرتا ہے، معاشرے کے خدوخال تراشتا ہے، ذہنوں کی تطہیر کرتا ہے اور خیالات کی دنیا کو مہمیز دیتا ہے۔ آج جب ہم عالمی یومِ لکھاری منانے کے لیے الفاظ ترتیب دے رہے ہیں، تو لازم ہے کہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر ان عظیم ہاتھوں کو سلام پیش کریں جنہوں نے تہذیب کے سینے پر حرف و معنی کے نقوش ثبت کیے۔
یہی قلم ہے جو ماضی کی گمشدہ صداؤں کو حال سے ہمکلام کرتا ہے اور مستقبل کے دریچے وا کرتا ہے۔ کبھی یہی قلم منصور حلاج کی زبان میں اناالحق کہہ کر صدائے حق بلند کرتا ہے، کبھی غالب کے ہاں محبوب کی بے وفائی کا نوحہ لکھتا ہے، کبھی اقبال کے ہاتھوں شاہین کی بلند پروازی کا خواب بُنتا ہے اور کبھی فیض کے قلم سے نکل کر ظلمتوں کے سینے میں روشنی بھر دیتا ہے۔
آج کا دور گویا معلوماتی انقلاب کا دور ہے، جہاں قلم محض قرطاس تک محدود نہیں بلکہ ڈیجیٹل اسکرینوں پر اپنے جلوے بکھیر رہا ہے۔ الفاظ تحریری صفحات سے نکل کر سوشل میڈیا کی گلیوں میں گونج رہے ہیں، بلاگز میں سوالات اٹھا رہے ہیں، اور کالموں میں فکر انگیزی کے چراغ جلا رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج کا لکھاری بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ کل تھا؟
آج، جب ادب کی محفلیں خاموش ہو رہی ہیں، کتب بینی کے رجحانات روبہ زوال ہیں، اور سطحی مواد کے سیلاب میں فکری تحریروں کا دم گھٹ رہا ہے، تو لکھاری کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ قلم کار کو چاہیے کہ وہ اپنی تحریر کو محض الفاظ کا ہنر نہ سمجھے بلکہ ایک عہد کی دستاویز جانے۔ اسے سمجھنا ہوگا کہ اس کے الفاظ کسی ذہن کی آبیاری کریں گے، کسی سوچ کو نئی راہ دکھائیں گے، کسی انقلاب کے لیے زمین ہموار کریں گے۔
لکھنے والا فقط لکھاری نہیں ہوتا، وہ قوموں کی تقدیر تراشنے والا معمار بھی ہوتا ہے۔ اگر اس کے قلم میں خلوص، علم اور بصیرت ہو، تو وہ تہذیبوں کی سمت متعین کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ محض شہرت، داد و تحسین اور وقتی فائدے کے لیے لکھے، تو اس کا انجام بھی بازارِ الفاظ کے بے روح بیوپاریوں سے مختلف نہ ہوگا۔
آج، جب ہم عالمی یومِ لکھاری مناتے ہیں، تو ہمیں اپنی سمت کا تعین بھی کرنا ہوگا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم لکھاری ہیں یا محض الفاظ کے سوداگر؟ کیا ہمارے قلم سے وہ روشنی پھوٹ رہی ہے جو ذہنوں کو منور کرے، یا ہم بھی سطحیت کے اندھیروں میں کھو گئے ہیں؟ کیا ہمارے الفاظ معاشرے میں خیر کا سبب بن رہے ہیں یا محض وقت گزاری کا ذریعہ بن چکے ہیں؟
یاد رکھیے، ہر دور کا لکھاری تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اپنے الفاظ سے یا تو نسلوں کی تقدیر بدل دیتا ہے یا پھر خود گمنامی کی دلدل میں دفن ہو جاتا ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کس صف میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے