ہوم << افسانہ : رمضان کی روشنی - حافظ احمد اقبال

افسانہ : رمضان کی روشنی - حافظ احمد اقبال

رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ شہر کی بڑی سڑکوں پر روشنیوں کی جھلکیاں تھیں، لیکن اندرونِ شہر کی ایک تنگ اور تاریک گلی میں ایک بوسیدہ گھر غربت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ گھر کی دیواروں پر نمی کے نشان تھے، چھت میں دراڑیں پڑ چکی تھیں، اور فرش پر بچھی پرانی چادر میں کئی جگہ سوراخ تھے۔ اس گھر میں رحمتاں بی بی اپنے دو بچوں، حمزہ اور نور کے ساتھ زندگی کی کٹھن راہوں پر چل رہی تھی۔

آج رمضان کی پہلی سحری تھی۔ گلی کے کچھ گھروں سے پراٹھوں اور کھجوروں کی خوشبو آ رہی تھی، لیکن رحمتاں بی بی کے چولہے پر بس ایک پرانی کیتلی میں پانی ابل رہا تھا۔ اس نے تھکے ہوئے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھے اور سائے میں بیٹھی اپنی بیٹی نور کو دیکھا، جو خاموشی سے زمین پر انگلی سے کچھ لکیریں کھینچ رہی تھی۔

"اماں! آج کچھ کھانے کو ملے گا؟" حمزہ نے اپنی خالی پلیٹ کو دیکھتے ہوئے ہلکی سی امید کے ساتھ پوچھا۔
رحمتاں بی بی کے لب کانپے۔ وہ اپنے دکھ کو مسکراہٹ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی،
"بیٹا! روزہ تو صبر اور شکر کا نام ہے نا؟ اللہ ہمیں دے گا۔ بس تم نیت کر لو، اللہ سب بہتر کرے گا۔"

نور، جو اپنی ماں کی خاموشی میں چھپا درد محسوس کر چکی تھی، اچانک بولی،
"اماں، میں باہر جا کر دیکھتی ہوں… شاید کوئی نیکی کرنے والا ہو۔ رمضان میں تو سب کو دوسروں کا خیال آتا ہے نا؟"
رحمتاں بی بی نے بیٹی کی طرف دیکھا، اس کے معصوم چہرے پر بھوک کی شدت تھی مگر آنکھوں میں امید کی کرن بھی۔ ایک لمحے کو سوچا کہ بیٹی کو روک لے، لیکن پھر دل کے کسی کونے میں ایک دعا جاگی۔
"جا بیٹی، اللہ تیرے ساتھ ہو۔"

نور ننگے پاؤں گلی میں نکلی۔ چاندنی رات میں ہوائیں ٹھنڈی تھیں، لیکن اس کے ننھے دل میں بھوک کی تپش زیادہ تھی۔ کچھ لوگ تراویح پڑھ کر گھروں کو جا رہے تھے، کچھ بازار سے آخری وقت کی خریداری کر رہے تھے۔
مسجد کے دروازے پر ایک سفید داڑھی والے حاجی صاحب کھڑے تھے، جو نمازیوں میں کھجوریں اور روٹیاں بانٹ رہے تھے۔
نور رک گئی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ خود سے لڑنے لگی— "مانگوں یا نہ مانگوں؟ کیا وہ انکار کر دیں گے؟ کیا لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھیں گے؟"

لیکن بھوک نے ہمت دی۔ اس نے لرزتے قدموں سے آگے بڑھ کر کہا،
"حاجی بابا! کیا مجھے بھی کچھ مل سکتا ہے؟"
حاجی صاحب نے نور کو غور سے دیکھا۔ اس کے پیلے پڑے چہرے، الجھے ہوئے بال اور آنکھوں میں چھپی بھوک نے ان کے دل کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ مسکرائے اور نرمی سے پوچھا،
"بیٹی! تمہارا گھر کہاں ہے؟"
نور نے جھجکتے ہوئے کہا،
"یہیں قریب ہی ہے، میری اماں اور بھائی بھی روزہ رکھنے والے ہیں، مگر ہمارے پاس کچھ نہیں..."

حاجی صاحب کی آنکھوں میں نرمی آ گئی۔ انہوں نے خاموشی سے ایک تھیلا نکالا اور نور کے ہاتھ میں تھما دیا،
"یہ لے جاؤ، بیٹی۔ اللہ تمہارے گھر میں برکت دے۔"
نور نے تھیلا کھولا، اس میں گرم روٹیاں، کھجوریں، چاول اور ایک چھوٹا سا دودھ کا ڈبہ تھا۔ اس کا دل خوشی سے بھر گیا، جیسے وہ دنیا کی سب سے بڑی دولت پا چکی ہو۔
وہ خوشی سے دوڑتی ہوئی گھر پہنچی۔
"اماں! دیکھو، اللہ نے ہماری سحری بھیج دی!" نور خوشی سے چیخی۔

رحمتاں بی بی نے جلدی سے تھیلا کھولا، کھانے کو دیکھا، پھر آسمان کی طرف دیکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
"یا اللہ! تیرا شکر ہے!"
اس نے بچوں کو سینے سے لگا لیا۔ حمزہ کی آنکھوں میں بھی چمک آ گئی۔ وہ خوشی سے بولا،
"دیکھا اماں! میں نے کہا تھا نا کہ اللہ ہمیں دے گا؟"
رحمتاں بی بی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر یہ شکر کے آنسو تھے۔

اسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔
رحمتاں بی بی حیرانی سے اٹھی اور دروازہ کھولا تو سامنے حاجی صاحب کھڑے تھے، جن کے ہاتھ میں ایک اور بڑا تھیلا تھا۔
"بی بی! یہ لو، اللہ کا دیا ہوا رزق۔ آج سے تمہاری سحری اور افطاری کی فکر ہماری ہوگی۔ اللہ نے ہمیں اس کام کے لیے چنا ہے۔"
رحمتاں بی بی کا دل شدت جذبات سے بھر گیا۔ وہ روتی ہوئی بولی،
"بابا جی! آپ فرشتہ ہیں، جو اللہ نے بھیجا ہے!"
حاجی صاحب مسکرا دیے،
"بی بی! میں تو بس وسیلہ ہوں، روشنی تو اللہ ہی بھیجتا ہے۔"

رحمتاں بی بی نے آسمان کی طرف دیکھا۔ رمضان کی رحمت ان کے گھر میں روشنی بن کر اتر آئی تھی۔ آج ان کے چولہے کی لو بھی جل رہی تھی اور دلوں میں شکر کا چراغ بھی۔