میں اگر خاموش ہو گیا تو شور اٹھے گا
وہ آنکھ سے اگر اوجھل ہوا تو شور اٹھے گا
تم اڑا لو ابھی دھول جہاں کہیں کی
میں نے جب آسماں گرایا تو شور اٹھے گا
اٹھا لیا ہے جس کو بھی جتنا درکار تھا میں
اب کسی نے ایک ٹکڑا بھی اٹھایا تو شور اٹھے گا
تیرے شانوں پہ جو شال ہے محبت ہے میری
تو نے اسے اگر احسان گنوایا تو شور اٹھے گا
یہ میرا چراغ خون جس سے روشن ہوا ہے تو
جب کبھی تم نے اسے بجھایا تو شور اٹھے گا
محبت، عداوت، سخاوت، عقیدت، نزاکت، شراکت
تم نے اب کسی سے بھی میرا دل بہلایا تو شور اٹھے گا
میری خشک آنکھیں مجھ سے یہ کہہ رہی ہیں غفی
کسی کم ظرف کے لیے اب ہمیں رلایا تو شور اٹھے گا
تبصرہ لکھیے