ہوم << پاکستان: آزمائش کا ایک اور باب؟ محمد حسن الیاس

پاکستان: آزمائش کا ایک اور باب؟ محمد حسن الیاس

افغانستان میں فتح کی مسرت ابھی مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ دور اندیش حلقے خبردار کر رہے تھے کہ یہ کامیابی ایک نئے خونریز دور کی تمہید ثابت ہو سکتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایک طاقتور گروہ، نظریاتی بنیادوں پر ابھر کر کسی خطے پر کنٹرول حاصل کرتا ہے، تو اس کے اثرات قریبی ممالک پر بھی پڑتے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہ صورتحال کسی خلا میں وقوع پذیر نہیں ہو رہی، بلکہ اس کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر رہی ہے۔

ماضی کے تجربات سکھاتے ہیں کہ انتہا پسندی کوئی وقتی بحران نہیں، بلکہ ایک گہرا فکری اور سماجی چیلنج ہے، جسے محض فوجی کارروائیوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی واپسی کے بعد TTP کی سرگرمیوں میں تیزی آنا غیر متوقع نہیں تھا۔ نظریاتی تحریکیں اپنے تعلقات کو صرف سیاسی مفادات تک محدود نہیں رکھتیں، بلکہ ان کے لیے قربانی اور توسیع پسندی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تصور کہ افغان طالبان، TTP سے مکمل لاتعلقی اختیار کر لیں گے، محض خوش فہمی ہے۔ کابل کی فتح میں انھی پاکستانی طالبان کا اہم کردار رہا، جو محفوظ پناہ گاہوں (Safe Havens) میں بیٹھ کر اس جنگ کا حصہ بنے۔ یہی عوامل پاکستان کے لیے ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہیں۔

ریاست نے ماضی میں شدت پسند گروہوں کو strategic مقاصد کے لیے استعمال کیا، لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہی عناصر بعد میں ریاست کے سب سے بڑے چیلنج میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ القاعدہ، TTP اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک بار اگر کسی نظریے کو فروغ دیا جائے تو اسے محض عسکری قوت سے ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ فکری اور نظریاتی سطح پر کوئی مؤثر متبادل فراہم نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تاریخ میں پہلی مرتبہ خود طالبان کے خلاف اقوام متحدہ میں گیا ہے، جو ریاستی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ تاہم، یہ اقدام صرف ایک علامتی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ایک بڑی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ بین الاقوامی سیاست میں مفادات کی جنگ مسلسل جاری رہتی ہے۔

امریکہ کا افغانستان سے انخلا گزشتہ سالوں میں روس کے ساتھ یوکرین پر توجہ مرکوز کرنے کی ایک ترجیح تھا، بالکل اسی طرح جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو اپنے نوآبادیاتی نظام سے پیچھے ہٹنا پڑا کیونکہ اشتراکی طاقتیں اس پر دباؤ ڈال رہی تھیں۔ تاہم، تاریخ ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ ایسے انخلاء کو ہمیشہ فریقِ مخالف اپنی فتح تصور کرتا ہے، حالانکہ درحقیقت یہ صرف عالمی طاقتوں کی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہوتا ہے۔ یہی معاملہ افغانستان کا بھی ہے، جہاں امریکہ کے انخلا نے ایک خلا پیدا کیا، جس میں نہ صرف طالبان بلکہ دیگر شدت پسند عناصر بھی جگہ بنانے لگے۔

یہ عالمی سیاست کی حقیقت ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے چھوٹے ممالک کو استعمال کرتی ہیں۔ پاکستان بھی ہمیشہ سے ایسی سیاست کا حصہ رہا ہے، جہاں بیرونی قوتیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف عناصر کو بروئے کار لاتی رہی ہیں۔ امریکہ، چین، بھارت، ایران، سعودی عرب اور روس سبھی خطے میں اثر و رسوخ چاہتے ہیں۔ چین، ہندوستان کو پاکستان کی سرحدوں پر زیادہ مصروف رکھنا چاہتا ہے، سعودی عرب ایران کی پراکسی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے قریب ہے، جبکہ امریکہ کے مطابق افغانستان میں اس کی موجودگی کا ایک بڑا مقصد خطے میں چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنا تھا۔ آج کے عالمی منظرنامے میں نیوٹرل رہنا ممکن نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان صرف ایک مہرہ بن کر رہے گا یا اپنی حکمت عملی کو خود طے کرے گا؟ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہماری خارجہ پالیسی اور قومی خودمختاری کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

شدت پسندی کے خاتمے کے لیے صرف عسکری کارروائیاں کافی نہیں۔ جب تک فکری سطح پر انتہا پسند نظریات کا توڑ نہیں کیا جاتا، یہ مسئلہ جڑ سے ختم نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ داخلی استحکام، متوازن خارجہ پالیسی (جو صرف ایجنٹی اور خدمات کے معاوضے پر مبنی نہ ہو) اور معیاری تعلیمی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے پاکستان بین الاقوامی محاذ آرائی میں نظریاتی گروہوں کو استعمال کرنے کی پالیسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے، اور اگر یہی روش برقرار رہی تو مستقبل میں بھی یہی کھیل دہرایا جاتا رہے گا۔

یہ صورتحال مذہبی حلقوں کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ جذباتی آرزوؤں اور وقتی کامیابیوں کو حقیقی فتح سمجھنا درحقیقت بین الاقوامی کھیل میں ایک مہرہ بننے کے مترادف ہے۔ تاریخ بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ جب مذہبی قوتوں کو کسی بڑی سیاسی یا عسکری حکمت عملی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو وقتی طور پر وہ طاقتور ضرور نظر آتی ہیں، لیکن آخر میں سب سے زیادہ نقصان بھی انہی کا ہوتا ہے۔ جو جنگیں باہر لڑی جاتی ہیں، ان کے شعلے ہمیشہ اپنے گھروں تک پہنچتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے نظرانداز کرنا تباہی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔