ہوم << کیا ایک ادیب کی جگہ کوئی دوسرا ادیب لے سکتا ہے؟ ناصر عباس نیر

کیا ایک ادیب کی جگہ کوئی دوسرا ادیب لے سکتا ہے؟ ناصر عباس نیر

نئے ادیب اکثر یہ گلہ کرتے ہیں کہ مشہور ، بزرگ ادیبوں نے ان کا راستہ روکا ہوا ہے۔ وہ کب جگہ خالی کریں گے ،اور انھیں ہر اہم ادبی میلے، کانفرنس،سیمینار، ادبی انعامات کی جیوری میں شامل ہونے کا موقع ملے گا۔

کبھی یہ گلہ نرم لفظوں میں کیا جاتاہے، کبھی طنزیہ انداز میں اور کئی بار معاندانہ ومتعصبانہ اسلوب میں ۔ ان گناہ گار کانوں نے کچھ ادیبوں کو یہ کہتے تک سنا ہے کہ یہ بڈھے کب مریں گے ؟ یہ قبر میں جائیں گے تو ان کی مسند انھیں ملے گی۔کئی بار وہ نام بھی گنواتے ہیں۔

یہ ادبی مسئلہ نہیں ، ادبی سماجیات کا معاملہ ہے۔ ادبی مسئلے میں، کیا ،کیسا اور کس سطح کا لکھا جارہا ہے ،جیسی باتیں زیر بحث آتی ہیں، جب کہ ادبی سماجیات میں کون کہاں ہے ، جہاں ہے کیوں ہے، کسے کہاں ہونا چاہیے، کسے انعام ملا ،کسے نہیں،جیسی باتوں پر گفتگو ہوتی ہے۔

تسلیم کہ ہمیشہ سے،ادبی مسائل اور ادبی سماجیات زیرِ بحث آتے رہے ہیں۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے، جب ادبی سماجیات کے موضوع کو ،ادبی مسئلہ بنا کر پیش کیا جائے ، یا ادبی مسائل پس منظر میں چلیں جائیں اور ہرجگہ، ادبی سماجیات ہی موضوعِ سخن ہو۔
یہ مقام حیرت وعبرت ہے کہ ادیب،لکھنے پڑھنے کی مسرت ، ادب اور دنیا کے تعلق پر خامہ فرسائی یا سخن آرائی کے بجائے ،محض مسند کی طاقت کی آرزو کرنے لگیں۔

یہ بھی تسلیم کہ شہرت میں کوئی برائی ہے ، نہ شہر ت کی آرزو میں کوئی خرابی ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ سب کو شہرت ، محض ان کے کام کے معیار کے سبب اور برابر نہیں ملتی۔ ایک ادیب کی شہرت میں، اس کے ادب کے علاوہ ، کچھ عوامل :جیسے اس کے منصب، تعلقات، اپنے کام کو کموڈیٹی بنا کر اس کی مارکیٹنگ کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ لیکن شہرت ایک چیز ہے،اہمیت دوسری چیز ہے۔ مشہورترین ادیب ، ادبی اعتبار سے غیر اہم ہوسکتے ہیں۔ شہرت کے ساتھ اہمیت نہ ہو تو ہر شہرت ، صابن کی جھاگ ہے۔ کوئی ادیب، محض منصب وتعلق کے سبب، دہائیوں تک معروف نہیں رہ سکتا۔

ادیب کی ادب میں ’جگہ‘ اس کی اہمیت کے سبب ہوتی ہے، شہرت کے باعث نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کسی ادیب کی جگہ کوئی دوسرا ادیب لے سکتا ہے؟ پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ ادیب کی ’جگہ ‘اور ایک واقعی جگہ میں فرق ہے۔

کوئی ادیب کسی سرکاری ، نیم سر کاری منصب اور خدمت پر مامور ہوسکتا ہے۔ اس منصب پر کوئی دوسرا دیب آسکتا ہے۔ صاف لفظوں میں ایک عہد ے پردوسرا ادیب آسکتا ہے، مگر ایک ادیب کی جگہ کوئی دوسرا ادیب نہیں لےسکتا۔

دوسروں کی دی گئی جگہ ، خالی کی جاسکتی یا خالی کرائی جاسکتی ہے، مگر جس جگہ کو ادیب نے خود ’پیدا‘ کیا ہو، وہ اس سے کوئی لے سکتا ہے، نہ چھین سکتا ہے ، نہ اس پر کوئی دوسرا قبضہ کر سکتا ہے، نہ اسے کوئی برباد کرسکتا ہے۔ ادیب کی یہ جگہ کہیں باہر ، ایک مقام پر موجود نہیں ہوتی۔
آپ مادی یعنی tangibleچیزوں کو ادھر ادھر کرسکتے ہیں ، ان پر حملہ کرسکتے ہیں ، انھیں تہس نہس کرسکتے ہیں، مگر ذہنی ، تخیلی ، اقداری ،تصوراتی یعنی intangible چیزوں کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ہاں، ان پر چوٹ کرسکتے ہیں، طنز کرسکتے ہیں، بدنام کرسکتے ہیں، مگر انھیں کوئی گزند نہیں پہنچاسکتے ۔

ان کی حفاظت کی ذمہ داری ، انسانی تہذیب نے خود اپنے ذمے لی ہوئی ہے۔ عظیم کتب ،اپنے معنی و جمال کی حفاظت خود کیا کرتی ہیں۔ ان کے معانی کی روشنی اور ان کے جما ل کی شیرینی ، لوگوں کے دلوں اور ذہنوں تک رسائی کے راستے پہچانتی ہیں۔
ادیب کی جگہ ،اس کی تحریروں اور ان کی تفہیم وتعبیر و تحسین کے ایک مسلسل عمل اور اپنی ادبی روایت میں کسی حقیقی اضافے میں موجود ہوا کرتی ہے۔ آپ ایک ادیب کی کتابوں کی مسخ شدہ تعبیر کرسکتے ہیں مگر ادبی تاریخ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ہر مسخ شدہ تعبیر اپنے اسلوب ہی سے پہچانی جاسکتی ہے،گویا اپنے غیر اہم ہونے کا سامان اپنے اندر ہی رکھتی ہے۔

زمانہ اور ادبی تاریخ ،رفتہ رفتہ ایک ادیب کو اس کے حقیقی مقام پر رکھتے چلے جاتے ہیں۔ وقت اور تاریخ کا دیا ہوا مقام اور اعزاز، کوئی نہیں چھین سکتا۔ زمانے اور تاریخ کی رو کو آگے بڑھنے سے غرض ہے۔ یہ ایک ندی ہے، جسے نئے پانی کی مسلسل ضرورت رہتی ہے۔ جس ادیب نے اس ندی میں اپنی تحریروں کے چشمے کا تازہ پانی شامل کیا ہو، اس کا احترام یہی ندی ،یعنی تاریخ کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک ادیب اگر دنیا سے چلا بھی جائے تو اس کی جگہ کوئی دوسرا نہیں لے سکتا۔ادیب کی اپنی جگہ ، اس کے حین ِ حیات اور بعد از مر گ ،اسی کی رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ادبی تاریخ میں یہ جگہ مزید وسیع ہو جائے یا سکڑ جائے، مگر یہ اس ادیب ہی کی جگہ رہے گی۔
کسی ادیب نے آج تک کسی دوسرے ادیب کی جگہ نہیں لی۔اس نے اپنی جگہ خود پیدا کی ہے۔ ادبی تاریخ کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں کہ کسی کے پلاٹ پر کوئی دوسرا قبضہ کرلے۔ ادبی تاریخ ، ایک عظیم ، بے کنارسپیس ہے ، جس میں ادیب اپنی جگہ یعنی پلیس خود بناتا ہے۔ادبی تاریخ ،حریص وخودپسند آدمی کا دل نہیں کہ وہ دوسروں کی قبولیت میں تنگی وتعصب کا مظاہرہ کرے۔

ہومر ،کالی داس، رومی ، شیکسپیئر، غالب ،اقبال ، بورخیس، کافکا، قرة العین حیدر، مارکیز میں سے کسی نے دوسرے کی جگہ نہیں لی، نہ ان کی جگہ کوئی لے سکتا ہے ۔اسی طرح ہمارے زمانے کے ممتاز، بزرگ ادیبوں کی جگہیں، ان کے کام اوراس کی تفہیم وتحسین ِ مسلسل سے وجود میں آئی ہیں۔یہ جگہیں،انھی کی مِلک ہیں، انھی کے پاس رہیں گی۔ نئے لوگ، اپنی جگہیں خود بنائیں گے۔
بہ قول انور شعور:

اتفاق اپنی جگہ خوش قسمتی اپنی جگہ
خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ