قصہ اذیتوں کا نمٹ ہی نہیں رہا
ذہنوں کا یہ کچھاؤ تو گھٹ ہی نہیں رہا
کب تک اٹھائے پھرتا رہوں میں تمھاری یاد
یہ بوجھ میرے سینے سے ہٹ ہی نہیں رہا
دونوں کے درمیان کرا دی مصالحت
دل سے مگر دماغ لپٹ ہی نہیں رہا
دو پل کی زندگی کا بھلا کیا حساب تھا
پروردگار! حشر تو کٹ ہی نہیں رہا
خاموشیوں کا دور ہے اور ایسا دور ہے
طوطا بھی چپ ہے بات کو رٹ ہی نہیں رہا
آواز دے کے تھک گیا میں اپنے آپ کو
لیکن میں اپنی سمت پلٹ ہی نہیں رہا
وہ آ گیا ہے لوٹ کے لیکن سکوں نہیں
ایسا بھی کیا غبار کہ چھٹ ہی نہیں رہا
تبصرہ لکھیے